بھارت میں انسانیت کی تذلیل عروج پر

ہندوستان کا سب سے بڑا حراستی مرکز تقریبا تیار ہے، شہریوں کی گنتی بھی کی جارہی ہے: غیر ملکی خبررساں ادارے

Usama Ch اسامہ چوہدری جمعہ 3 جنوری 2020 00:28

بھارت میں انسانیت کی تذلیل عروج پر
نئی دہلی (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین 2 جنوری 2020) : بھارت میں انسانیت کی تذلیل عروج پر، غیر ملکی خبررساں ادارے مطابق ہندوستان کا سب سے بڑا حراستی مرکز تقریبا تیار ہے، شہریوں کی گنتی بھی کی جارہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت آسام میں ایک بہت بڑا حراستی مرکز بنا رہا ہے، یہ بھارت کا سب سے بڑا حراستی مرکز ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کا اس حراستی مرکز میں ان افراد کو رکھے گا جو کہ بھارت کی شہریت حاصل نہ کر سکیں ہونگے اور بھارت میں مقیم ہونگے۔

اس حوالے سے بھارت کی جانب سے ایک لسٹ جاری کی گئی ہے جس میں ان افراد کے نام ہیں جوکہ بھارت کی شہریت نہیں رکھتے ہیں، اسے این آر سی لسٹ کا نام دیا گیا۔ یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق انیس لاکھ غیر دستاویزی تارکین وطن جو آسام میں این آر سی کی فہرست میں جگہ نہیں بنا سکے ہیں ان میں سے قریب نصف مسلمان تھے۔

(جاری ہے)

اب ہندوستان کے دو کروڑ مسلمانوں کو خوف ہے کہ اس عمل کو ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم برادری کو پسماندہ کرنے کے لئے پورے ملک میں نافذ کرے گی۔

گذشتہ ماہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کی منظوری نے اس طرح کے خدشات کو بڑھا دیا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں اب تک کم از کم 26 اموات ہوگئیں ہیں۔ ریاست کے دارالحکومت دیس پور سے 126 کلومیٹر کے فاصلے پر گولپارہ کے گائوں میں واقع حراستی مرکزقریبا 28000 مربع میٹر اراضی میں پھیلے ہوئے اس مقام پر 3،000 افراد رہ سکتے ہیں۔

یہ مرکز گولپارہ کے ایک دور دراز علاقے میں واقع ہے اس کے چاروں اطراف کھلی اراضی ہے اور ایک سڑک ہے جوکہ اس کو مرکزی شہر گوہاٹی سے جوڑتی ہے۔ حراستی مرکز کے ایک طرف سڑک جاتی ہے جسے "بھوت" پہاڑ کہا جاتا ہے۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق افسانہ کی بات یہ ہے کہ بھوت صدیوں پہلے اس پہاڑ پر حکمرانی کرتے تھے اور کسی بھی انسان کو اس کو عبور کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب حراستی مرکز کی تعمیر کے بعد وہی دور واپس آ جائیگا جہاں لوگ اس طرف جائیں گے مگر واپس نہیں آئینگے۔ یاد رہے کہ سی اے اے نے ہمسایہ ممالک پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ، مسلمانوں کے علاوہ ، چھ مذہبی گروہوں کو ہندوستانی شہریت دی ، جو 2015 سے پہلے ہی ملک آئے تھے۔