ہائیکورٹ نے باپ سے بازیاب کرایا گیا بچہ ماں کی تحویل میں دیتے ہوئے درخواست نمٹادی

آئی جی کے بارے میں منفی ریمارکس ختم کرانے کے لیے دائر متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ

منگل 18 فروری 2020 13:30

ہائیکورٹ نے باپ سے بازیاب کرایا گیا بچہ ماں کی تحویل میں دیتے ہوئے درخواست ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 فروری2020ء) لاہورہائیکورٹ نے باپ سے بازیاب کرایا گیا بچہ ماںکی تحویل میں دیتے ہوئے درخواست نمٹادی جبکہ عدالت نے آئی جی پنجاب کے بارے میں منفی ریمارکس ختم کرانے کے لیے دائر متفرق درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ لاہورہائیکورٹ میں درخواست گزار خاتون یاسمین کی درخواست پر سماعت کی گئی ۔

دوران سماعت پولیس نے والد سے بازیاب کرائے گئے بچے تین سالہ عبد الرافع کو عدالت میں پیش کیا جسے عدالت کے حکم پر ماں کی تحویل میں دیدیا گیا ۔ پولیس نے بتایا کہ بچے کو کچے کے علاقے سے بازیاب کروایا گیا ہے ،باپ پولیس کے ڈر سے بچے کو لے کر روپوش ہوگیا تھا۔ اس موقع پر فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ بچے کا والدکہاں ہیں ۔

(جاری ہے)

پولیس نے بتایا کہ اس پر ایف آئی آر درج ہے وہ جیل میں ہے۔

بچہ بازیابی کیس میں آئی جی پنجاب کے بارے میں منفی ریمارکس ختم کرانے کے لیے متفرق درخواست پر بھی سماعت ہوئی ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی درخواست پر سماعت کی ۔دوران سماعت موقع اپنایاگیا کہ آئی جی پنجاب عدالتی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتے،عدالت کے طلب کرنے پر آئی جی پنجاب 6 فروری کو 15منٹ میں ہائیکورٹ پہنچے ،جسٹس طارق عباسی کے تحریری حکم میں دی گئی آبزرویشن غیر قانونی ہے،آئی جی پنجاب کے بارے میں دی گئی آبزرویشن کو عدالتی حکم سے ختم کیا جائے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ آرڈر پڑھ کر سنائیں اس میں کیا غلط لکھا ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ آئی جی پنجاب کے بارے میں عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ آئی جی پنجاب نے عدالتی حکم کی بے توقیری کی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ جب آپ عدالت کے سامنے آتے ہیں تو ٹائم فریم نہیں دیتے۔ اس موقع پر جسٹس طارق سلیم نے درخواست گزار خاتون کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آفس کی درخواست منظور کئے جانے پر کوئی اعتراض ہی ، جس پر درخواست گزار خاتون کے وکیل نے جواب دیا کہ آئی جی پنجاب کے بارے آبزرویشن ختم کروانے کیلئے درخواست کے منظور ہونے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ۔