بنوں،میر علی وزیرستان کے دکانداروں اور مارکیٹ مالکان راہنمائوں کا دکانات کا معاوضہ نہ ملنے اور اے سی میرعلی کے تبادلے کیخلا ف احتجاجی مظاہرہ

جمعہ 28 فروری 2020 21:16

بنوں(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 فروری2020ء) میر علی وزیرستان کے دکانداروں اور مارکیٹ مالکان راہنمائوں کا دکانات کا معاوضہ نہ ملنے اور اے سی میرعلی کے تبادلے کے خلاف پریس کلب بنوں کے سامنے کے لئے احتجاجی مظاہرہ ۔

(جاری ہے)

اے سی عبدالقیوم کا تبادلہ سمجھ سے باہر قرار دیااور اس تبادلے کو فوری رکوانے کا مطالبہ کیا مظاہرہ کے بعد ہنگامی پریس سے خطاب کرتے ہوئے ٹریڈ یونین تحصیل میر علی کے صدر ذہین اللہ خان ، نائب صدر ارفاق اللہ ، حاجی عبداللہ خان ، احمد اللہ ملک افتاب خان ، محمد ابراہیم ، سمیع اللہ خان ، رحمان گل ، پراپرٹی ایسوسی ایشن کے صدر بوستان خان اور نائب صدرطاہر اللہ نے کہا کہ میرعلی میں چھ ہزار سے زائد دکانات تھے جس میں مقامی لوگ بھی تھے اور غیر مقامی لوگ بھی کاروبار کر رہے تھے ضرب عضب کے دوران ہمیں اپنے دکانات سے سامان نکالنے کے لئے بہت کم مہلت ملی جس کی وجہ سے تمام قیمتی سامان دکانات میں ہی تباہ ہو گیا جو کروڑوں مالیت کا تھا حکومت نے میرعلی کے تین ہزار کے قریب دکانداروں کے کچھ نقصانات کا ازالہ تو کیا گیا لیکن ہزاروں کی تعداد میں متاثرین تاجر اب بھی معاوضہ کے لئے ترس رہے ہیں اسی طرح میرعلی میں ضرب عضب اپریشن کے دوران مارکیٹوں کا مالکان کا کافی نقصان ہوا ہے اور ان کے کروڑوں مالیت کے پلازے اور مارکیٹیں مسمار کر دی گئی تھیں cان لوگوں کے نقصانات کا ازالہ ابھی تک نہیں کیا گیا اور ان لوگوں نے جو اھتجاج شروع کیا ہے ہم ان کے مکمل حمایت کرتے ہیں اور ان کے لوگوں سے اس وقت تک کھڑے ہوں گے جب تک ان کو معاوضہ نہ دیا جائے انہوں نے کہا کہ ہم دکانداروں نے وزیرستان میں جاری مظاہرہ کو اے سی عبدالقیوم کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں موخر کر دیا تھا لیکن اس کو اچانک تبدیل کر دیا گیا ہے جس کا ہم ایک ہی مطلب لے سکتے ہیں کہ حکومت دکانداروں اور مارکیٹ مالکان کو معاوضہ دینے میں سنجیدہ نہیں انہوں نے اے سے کے تبادلے کو فوری رکوانے کا مطالبہ کیا انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ شمالی وزیرستان کے لوگ جنگ زدہ ہیں اور یہاں لوگوں کا معاش بری طرح متاثر ہے اس لئے ضم ہونے کے بعد اس کو کچھ عرصہ کے لئے فری ٹیکس علاقہ قرار دیا جائے اور غلام کسٹم چیک پوسٹ کو سیدگی چیک پوسٹ منتقل کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگوں کی معاشی صورت حال بہتر ہو سکے اور اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کئے گئے تو ہم ایک بار احتجاج پر مجبور ہوں گے اور یاجروں کے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے لیکن اس بار احتجاج بھر پور احتجاج ہوگا ۔