جسٹس فائز عیسیٰ کیس،سپریم کورٹ نے وفاق سے 4 سوالات پر جواب طلب کرلئے

اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کی شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی اور شکایت صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی ، عدالت عظمیٰ

منگل 2 جون 2020 16:39

جسٹس فائز عیسیٰ کیس،سپریم کورٹ نے وفاق سے 4 سوالات پر جواب طلب کرلئے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 جون2020ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر سینئر جج کی درخواست پر سماعت کے بعد وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سابق وزیر قانون فروغ نسیم سے 4 سوالات پر جواب طلب کرلیے۔منگل کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

خیال رہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔اس معاملے پر اب تک طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔

(جاری ہے)

بعد ازاں مذکورہ معاملے کی 24 فروری ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کٴْل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا۔جس کے بعد اس مذکورہ معاملے کی دوبارہ سماعت ہوئی، تاہم اس سماعت کے آغاز ہونے سے ایک روز قبل ہی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ جسٹس عیسیٰ کیس میں وفاق کی نمائندگی کریں گے۔

اس سلسلے میں جب سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کمرہ عدالت میں سماجی فاصلہ رکھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ عدالت میں لوگ ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ کے بیٹھیں۔بعد ازاں سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے پیش ہوکر کہا کہ میں وفاق اور شہزاد اکبر کی نمائندگی کررہا ہوں، تاہم جسٹس عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن سینئر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم کا بڑا احترام ہے لیکن ان کی جانب سے وفاق کی نمائندگی پر اعتراض ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم کو پیش ہونے کے لیے اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا، رولز وفاقی حکومت کو نجی وکیل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل آفس سے کوئی سرکاری وکیل پیش ہونے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ دینا پڑتا ہے۔منیر اے ملک نے فروغ نسیم کے بطور وکیل پیش ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں آپ سے کہوں گا کہ اعتراض نہ اٹھائیں اور کیس کو آگے بڑھنے دیں، ویسے بھی موسم گرما کی تعطیلات شروع ہونے والی ہیں، ہم کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ میں نے تحریری طور پر عدالت کو اعتراضات سے آگاہ کردیا ہے، تمام اعتراضات آئین و قانون اور سپریم کورٹ کے قوائد کے مطابق ہیں، عدالت کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا عدالت خود اعتراضات دیکھ لے۔

اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ان کے اوپر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں،رشید احمد کیس میں اس سے متعلق وضاحت ہوچکی ہے۔فروغ نسیم کی بات پر منیر اے ملک نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی نمائندگی اور دفاع کا حق حاصل ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سابق اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے استعفیٰ کے بعد فروغ نسیم پیش ہو رہے ہیں، منیر اے ملک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑیں۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ مناسب فیصلے تک پہنچنے کے لیے ہمیں معاونت درکار ہے، گرمیوں کی تعطیلات سے قبل اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں، مناسب ہوگا آپ اپنے اعتراضات واپس لیں بصورت دیگر ہم فیصلہ دیں گے۔اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ملک میں نافذ قانون پرعمل ہونا چاہیے،یہ انصاف اور شفافیت کا مقدمہ ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے مطلوبہ سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے۔

ان کی اس بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ ریکارڈ پر لے کر آئیں، سرٹیفکیٹ کے ریکارڈ پر آنے کے بعد فیصلہ کریں گے۔دوران سماعت اس معاملے کے بعد جب کیس سے متعلق دلائل شروع ہوئے تو فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تحریری درخواست کی زبان پر اعتراض ہے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم آپ مقدمے کے میرٹ پر بات کریں، درخواست میں کیا کہا گیا ہے اسے چھوڑیں۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں، اس حقیقت کو درخواست گزار تسلیم کر چکے ہیں، لہٰذا عدالت کے سامنے آرٹیکل 209 کے تحت یہ جج کے مس کنڈکٹ کا معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئیں، منی ٹریل کہاں ہے، پاکستان سے جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر کیسے گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ منی ٹریل نہیں دیتے تو یہ مس کنڈکٹ ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ معزز جج کی معاشرے میں بڑی عزت و تکریم ہے، جس پر فل کورٹ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں، پہلے یہ بتائیں جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہیں اس کے جواب میں سابق وزیر قانون نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے کہ جائیدادیں ان کی نہیں ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرا بیٹا اگر کوئی جائیداد خرید لیتا ہے تو کیا اس کا جواب دہ میں ہوں گا ۔

بینچ کے ایک اور رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچے اور اہلیہ ان کے زیر کفالت ہیں تو ثابت کریں، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ بچے اور اہلیہ زیر کفالت نہیں تو درخواست گزار پر ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کن وسائل سے جائیدادیں خریدیں۔فروغ نسیم کے مطابق جوڈیشل کونسل ریفرنس کا جائزہ لے کر مسترد کرسکتی ہے، تاہم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل اور معزز جج کو سننے کے بعد شو کاز (اظہار وجوہ کا) نوٹس کیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ شوکاز نوٹس کی اپنی اہمیت ہے تلاہم درخواست میں بدنیتی کا الزام بھی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ معزز جج کے وکیل نے شوکاز نوٹس پر دلائل دینے میں ہچکچکاہٹ دکھائی، منیر اے ملک نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دئیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ شاید منیر اے ملک نے بدنیتی پر پہلے دلائل دینا مناسب سمجھا۔اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ سابق چیف جسٹس کو بغیر شوکاز نوٹس کے جوڈیشل کونسل نے کیسے طلب کیا، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کو شوکاز نوٹس نہیں جاری کیا گیا۔

فروغ نسیم نے سابق چیف جسٹس کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف ریفرنس میں شوکاز نہیں ہوا تھا تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے میں شوکاز نوٹس جاری ہوا، جس کے بعد ریفرنس پختہ ہوگیا۔اس پر بینچ کے ایک اور رکن جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ ریفرنس کس طرح سے تیار ہوا، ریفرنس کا مواد کیسے اکٹھا ہوا، سب سے پہلے ریفرنس کی تیاری پر دلائل دیں۔

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کے ریفرنس میں آرٹیکل 209 کی پیروی نہیں کی گئی جبکہ موجودہ صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل 209 پر مکمل عمل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ شوکاز کا جواب دینے کے بجائے اس پر درخواست دائر کردی گئی، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معزز جج کہتے ہیں کہ منی ٹریل اور وسائل کا بچوں اور اہلیہ سے پوچھا جائے۔اسی دوران بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جس کے نام جائیدادیں ہیں ان کو نظر انداز کرکے دوسرے سے سوال کیسے پوچھا جا سکتا ہے۔

جسٹس قاضی امین نے بھی یہ بات کہی کہ وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے، کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہی انہوں نے کہا کہ ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے، کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں طویل سماعت میں ایک اور جج جسٹس منیب اختر نے فروغ نسیم سے پوچھا کہ آپ دلائل سے جو کیس بتا رہے ہیں وہ ریفرنس سے مختلف ہے، آج آپ انکم ٹیکس قانون کی بنیاد پر کیس بتا رہے ہیں جبکہ ریفرنس میں انکم ٹیکس قانون کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کا کام ہے کہ ریفرنس خارج کرے یا منظور کرے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہونے کے نقطے پر دلائل دیں، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آئینی درخواست میں ریفرنس پر بحث علمی حیثیت کی ہوگی۔سابق وزیر قانون کے جواب پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فروغ نسیم آپ کی اس دلیل سے میں اتفاق نہیں کرتا، بظاہر لگتا ہے کہ آپ شوکاز نوٹس پر کیس کرنا چاہتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ شوکاز نوٹس سے قبل ریفرنس محض کاغذ کا ٹکڑا تھا۔

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز نوٹس سے قبل ریفرنس کی تیاری کا عدالتی جائزہ ہوسکتا ہے، اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ درخواست گزار کا الزام ہے کہ ریفرنس کی پوری کارروائی غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے، پہلے مرحلے پر اس معاملے پر ہر دلائل دینا مناسب ہو گا۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہر ایکشن یا حکم قانون کے مطابق ہونا چاہیے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد آرٹیکل 211 کا اطلاق ہو جاتا ہے، آرٹیکل 211 کے اطلاق کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج نہیں ہوسکتی۔

وفاق کی نمائندگی کرنے والے فروغ نسیم کی بات پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اگر ہم آپ کی یہ دلیل نہ مانیں تو پھر کیا آپ ریفرنس کی تیاری کے مراحل پر دلائل نہیں دینگے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ریفرنس کی تیاری پر دلائل دوں گا۔اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ پھر سب سے پہلے ریفرنس کی تیاری پر دلائل دیں، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اتنی بحث میں کیوں پڑ رہے ہیں اصل نقطے پر آتے آتے آدھا گھنٹہ لگ گیا، جس پر سابق وزیر قانون نے کہا کہ مجھے نقطہ اختتام پر وفاق کی نمائندگی کا کہا گیا۔

علاوہ ازیں مذکورہ سماعت کے آخر میں کیس کے ایک اور درخواست گزار وحید ڈوگر کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو وحید ڈوگر کی شکایت کی نقل درخواست گزار جج کو فراہم کرنی چاہیے تھی، وحید ڈوگر کی شکایت کی دستاویزات کا دس مرتبہ عدالت نے پوچھا، میڈیا پر کئی بار دستاویزات دکھائی گئیں لیکن عدالت کو نہیں دی گئیں۔

اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کیا ہے پہلے یہ بتائیں، شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ تک کیسے پہنچی، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کا آرٹیکل 209 کے ساتھ کیا تعلق ہی جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ وحید ڈوگر نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو درخواست دی۔جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وحید ڈوگر کی نام نہاد شکایت کی نقل فراہم نہیں کی گئی، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ غلطی سے یہ دستاویزات عدالت میں جمع نہیں کروا سکے، اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ منیر اے ملک نے دو دن اسی نقطے پر دلائل دئیے، حکومتی ٹیم دلائل کے دوران یہاں موجود تھی لیکن شکایت جمع نہیں کروائی۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت اس معاملے پر غلطی پر ہے، شکایت کو ریکارڈ پر لائے بغیر اس کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے فروغ نسیم سے 4 سوالات پر جواب طلب کرلیے گئے۔عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ یہ الزام ہے کہ مواد غیرقانونی طریقے سے اکٹھا ہوا، آپ نے مواد کو غیرقانونی اکٹھا کرنے پر دلائل دینے ہیں۔جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کی فروغ نسیم سے عدالت نے سوالات کیے کہ شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی اور شکایت صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی ان سوالات کے جوابات دینے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تیاری کے لیے مزید 12 گھنٹوں کا وقت دے رہے ہیں، جس کے ساتھ ہی مذکورہ معاملے کی سماعت (آج) بدھ کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔