”نماز کے دوران چہرے پر ماسک پہننا جائز نہیں مگر وبا کے دوران اس کی اجازت ہے“

ممتاز سعودی مفتی اور عالم شیخ عبداللہ المطلق نے 65 سال سے زائد افراد کو گھر پر ہی نماز پڑھنے کی تاکید کی

Muhammad Irfan محمد عرفان جمعرات 4 جون 2020 13:11

”نماز کے دوران چہرے پر ماسک پہننا جائز نہیں مگر وبا کے دوران اس کی اجازت ..
جدہ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 4 جون 2020ء) سعودی عرب کے مشہور مفتی اور عالم شیخ ڈاکٹر عبداللہ المطلق نے کہا ہے کہ اسلام میں عام حالات میں منہ اور ناک کو ماسک سے ڈھانپ کر نماز پڑھنا جائز نہیں، مگر وبا کے باعث ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ المطلق سعودی عرب کے ممتاز ترین علماء پر مشتمل بورڈ کے رُکن ہیں اور شاہی ایوان کے مشیر وں میں سے ایک ہیں۔

شیخ عبداللہ المطلق نے ایک سعودی ٹی وی چینل پر فتاویٰ سے متعلق ایک مذہبی پروگرام میں کہا کہ کورونا کی موجودہ وبا کے باعث احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ماسک پہننا ایک مستحب عمل ہے۔ شیخ المطلق نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت کی جانب سے 65 سال سے زائد افراد کو نماز مساجد کی بجائے گھروں پر ہی پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے، ان بزرگ افراد کو کورونا وبا کے خاتمے تک گھروں پر ہی رہ کر نماز پڑھنا بہتر رہے گا۔

(جاری ہے)

لوگوں کو سعودی وزارت مذہبی امور کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات پر پوری طرح عمل کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ڈاکٹر المطلق کا ایک فتویٰ بہت زیادہ زیر بحث آیا تھا۔ جب انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں سعودی مردوں کو تاکید کی تھی کہ وہ ایک سے زائد شادیاں کریں تاکہ مطلقہ خواتین اور بڑھتی عمر کی حامل کنواری خواتین کو تحفظ مِل سکے۔

اس پروگرام کے دوران ایک خاتون نے اُن سے سوال کیا کہ مملکت میں ایک سے زائد شادیوں کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے مگر مرد حضرات اپنی بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کر پا رہے۔کسی سے زیادہ التفات برتتے ہیں اور کسی سے کم۔ کیا کثیر الازدواجی ایک مثبت رواج ہے۔ اس کے جواب میں شیخ المطلق نے کہا کہ اسلام کی رُو سے کثیر الازدواجی کی ممانعت نہیں ہے۔

البتہ بعض اوقات معاشرے میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے جبکہ بعض صورتوں میں یہ جُرم کی شکل اپنا لیتا ہے۔ کسی سماج میں زائد عمر کی کنواریوں اور مطلقہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو جانے کی صورت میں ایک سے زائد شادیاں ضروری ہو جاتی ہیں تاکہ مذکورہ خواتین کو سہارا مِل سکے۔اس وقت بہت سی بچیاں جوانی ڈھلنے کے باوجود شادی شُدہ زندگی کی خوشیوں سے محروم ہیں۔

جبکہ کچھ خواتین طلاق یافتہ ہونے کے بعد تنہائی، بے بسی اور کسمپرسی کا جیون بِتانے پر مجبور ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ایک سے زائد شادیاں کریں۔ جبکہ بیویوں کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہروں کی دُوسری شادی میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے اس نیک کام میں اُنہیں اپنا بھرپور تعاون دیں۔ البتہ مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ یکساں حُسنِ سلوک اور مساوات کا رویہ اپنائے تاکہ خانگی تلخیاں جنم نہ لیں۔