اودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا افتتاح وزیراعظم مودی (کل)5اگست کو کریں گے

مندر کے احاطے کے باہر درجنوں مساجد اور درگاہیں ایودھیا کے قدیم شہر کی ملی جلی وراثت کا پتہ دیتی ہیں ایودھیا ہمیشہ امن کا شہر رہا ہے اور یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی حاصل رہی ہے‘مقامی لوگوں کا اظہار خیال

منگل 4 اگست 2020 20:28

ایودھیا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اگست2020ء) انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی دنیا بھر کے ہندوؤں کی عقیدت کے مرکز ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا افتتاح (کل)پانچ اگست کو کریں گے، لیکن افتتاح سے ایک ہفتے قبل ہی مندر کی تعمیر کا جشن شروع ہو چکا ہے۔یہ رام جنم بھومی مندر تقریباً 70 ایکڑ قطع ارض پر تعمیر کیا جائے گا۔رام جنم بھومی ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے گہری عقیدت کا مرکز تو ہے ہی مگر اس مندر کے احاطے کے باہر درجنوں مساجد اور درگاہیں ایودھیا کے قدیم شہر کی ملی جلی وراثت کا پتہ دیتی ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایودھیا ہمیشہ امن کا شہر رہا ہے اور یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی حاصل رہی ہے۔کچھ عرصہ قبل انڈین سپریم کورٹ نے منہدم بابری مسجد کی متنازع زمین کی ملکیت کے حق کا فیصلہ رام جنم بھوی کے حق میں دیا تھا۔

(جاری ہے)

اب اس اراضی پر بھگوان رام کے ایک عظیم الشان مندر کی تعمیر کا آغاز کیا جانے والا ہے۔ رام جنم بھومی جس علاقے میں واقع ہے وہاں کسی وقت مسلمانوں کی بڑی آبادی ہوا کرتی تھی۔

اب بھی رام جنم کے لیے حاصل کی گئی زمین سے ملحقہ دس مساجد اور درگاہیں واقع ہیں، جہاں باضابطہ طور پر اذان، نماز اور سالانہ عرس وغیرہ بغیر کسی روک ٹوک کے منقعد کیے جاتے ہیں۔یہ مساجد اور درگاہیں احاطے کی بیرونی دیواروں سے تقریباً سو سے دو سو میٹر کے دائرے میں واقع ہیں۔ اس علاقے میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب ’رامائن‘ کی رام دھن اور مسجدوں سے دی جانے والی اذانوں کی صدائیں ایک ساتھ سنائی دیتی ہیں۔

منہدم بابری مسجد میں تو نماز 23 دسمبر 1949 کے بعد سے نہیں ہو سکی تھی۔مگر مندر کی زمین سے ملحقہ مساجد میں نماز ادائیگی کا سلسلہ مستقل طور پر جاری ہے۔ ان مساجد میں جوگیوں کی وہ مسجد بھی شامل ہے جسے تقریباً سو سال پہلے ایک ہندو سادھو نے تعمیر کرایا تھا۔رام جنم بھومی کے احاطے سے ملحقہ مسجدوں اور درگاہوں میں مسجد دوراہی کنواں، مالی مندر کے بغل والی مسجد، مسجد قاضیاں، مسجد امام باڑہ، مسجد ریاض، مسجد بدر پانجی ٹولہ، مسجد مدار، مسجد جوگیوں کی اور دو درگاہیں شامل ہیں۔

ان میں خانقاہ مظفریہ اور امام باڑہ قبل ذکر ہیں۔رام جنم بھومی سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر واقع پانچ سو برس قدیم خانقاہ مظفریہ کے موجودہ سجادہ نشین سید اخلاق احمد لطیفی کہتے ہیں ’یہ حقیقت ہے کی یہ خانقاہ جو پانچ سو سال پرانی ہے، یہاں مستقل طور پر پانچ وقت کی اذان، نماز اور اس کے دوران قوالی اور وعظ جاری رہتا ہے۔کبھی کسی ہندو کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔

بلکہ مقامی ہندو تو ہمارے عرس میں اور ہمارے سبھی تہواروں میں شامل ہوتے ہیں۔ ادھر مندروں میں پوجا ہوتی ہے اور یہاں ہم لوگ نماز ادا کرتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔حاجی اسد احمد ایودھیا میونسپل کارپوریشن کے کارپوریٹر ہیں اور رام کوٹ علاقے، جہاں رام جنم بھومی واقع ہے، کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایودھیا کی عظمت ہے کہ جہاں مسجد ہندوؤں کے سب سے بڑے مندر سے متصل ہے اور ان مسجدوں سے جب اذان ہوتی ہے وہ باقی دنیا کو ’بقائے باہمی‘ کا پیغام دیتی ہے کہ کس طرح ایودھیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان محبت اور خلوص قائم ہے۔

رام جنم بھومی مندر کے اعلیٰ پجاری آچاریہ ستیندر داس رام جنم بھومی کے اطراف میں پھیلی ہوئی مساجد اور مزارات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’ہمارا تنازع صرف اس عمارت تک تھا جسے بابری مسجد کا نام دیا جاتا تھا، ہمارا کبھی کسی بھی مسلمان، مسجد یا مزار کے ساتھ کوئی تنازع رہا ہے نہ رہے گا۔آچاریہ ستیندر داس مزید کہتے ہیں کہ ’اس سے اچھا کیا منظر ہو سکتا ہے کہ رام جی کے مندر کے اطراف میں مساجد ہوں اور ان میں اذان، نماز ہو رہی ہو اور ادھر مندر میں پوجا اور بھجن ہو رہا ہے۔

رام جنم بھومی کی ملکیت کے مختار ترلوکی ناتھ پانڈے کہتے ہیں ’ہماری کوئی دشمنی ایودھیا کے مسلمانوں سے نہیں ہے۔ہمیں ایودھیا کے مزاروں اور مساجد سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تنازع صرف اس زمین کا تھا جہاں بابری مسجد بنی ہوئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ ایودھیا نگری اپنی فطرت کے مطابق پٴْرامن رہے گی اور یہاں رہنے والے ہندو اور مسلمان محبت سے اپنی زندگی گزاریں گے۔