ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب بیماریوں میں بھی زبردست اضافہ

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 21 اکتوبر 2021 12:40

ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب بیماریوں میں بھی زبردست اضافہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اکتوبر 2021ء) عالمی طبی تحقیقی جریدے 'لانسیٹ‘کی طرف سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں صحت کے 44 مسائل کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صحت کے مسائل بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کے مطابق عالمی طبی جریدے 'لانسیٹ‘ کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹوں میں صحت کے 44 مسائل کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے جوڑا گیا ہے، جن میں گرمی سے ہونے والی اموات، متعدی امراض اور بھوک شامل ہیں۔

’لانسیٹ کاؤنٹ ڈاون‘ پروجیکٹ کی ریسرچ ڈائریکٹر اور بائیو کیمسٹ مرینا رومانیلو نے کہا کہ ان میں سے ہر ایک بیماری سنگین ہو تی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انوائرمنٹل ہیلتھ کی پروفیسر کرسٹی ایبی نے کہا،''یہ سب بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مضمرات ہیں۔"

’کوڈ ریڈ‘ یعنی خطرے کا انتہائی نشان

’لانسیٹ‘ نے دو رپورٹیں جاری کی ہیں۔

ان میں سے ایک عالمی اور دوسری صرف امریکا کے لیے ہے۔ ان میں سے ایک ’کوڈ ریڈ فار ہیلدی فیوچر’کے مطابق گلوبل وارمنگ کے خطرے سے دوچار عمر دراز اور نوجوان افراد گزشتہ برس پہلے کے مقابلے زیادہ خطرناک درجہ حرارت کا شکار بنے۔

رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 1986سے سن 2005 کے مقابلے گزشتہ برس 65 برس سے زائد عمر کے تین ارب سے زیادہ افراد انتہائی گرمی کا شکار ہوئے۔

ان میں زیادہ تر افراد ان مقامات پر رہتے تھے جہاں ماحولیاتی لحاظ سے حساس بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ گذشتہ دہائی میں بالٹک یعنی امریکا کے شمال مشرق اور بحرالکاہل کے شمال مغربی ساحلی علاقے وبریو بیکٹیریا (Vibrio Bacteria)کے لیے کافی گرم ہیں، جہاں ان کی تعداد بڑھی ہے۔

کچھ غریب ممالک میں مچھروں کے ملیریا پھیلانے کے موسم کا دورانیہ 1950 کے عشرے کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔

ہم غلط سمت میں جا رہے ہیں

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں ٹراپیکل میڈیسن کی پروفیسر ڈاکٹر مشیل بیری کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کو 'کوڈ ریڈ‘ کہنا بھی ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’لانسیٹ‘ کی سابقہ رپورٹ کے مقابلے میں اس نئی رپورٹ کے نتائج ”ایک سنجیدہ اور حساس مسئلہ ہے، یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم مکمل طور پر غلط سمت میں جا رہے ہیں۔

واشنگٹن یونیورسٹی میں ماحولیاتی صحت اور ایمرجنسی میڈیسن کے پروفیسر اور اس تحقیقات میں شامل ڈاکٹر جیریمی ہیس نے کہا کہ انہوں نے گرمی کے دوران سیئٹل کی ایمرجنسی میں کام کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات دیکھے۔ انہوں نے کہا،”میں نے نیم طبی عملے کو دیکھا جو لو لگنے سے بیمار مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے خود بھی لو کا شکار ہو گئے۔

" انہوں نے مزید کہا،”میں نے بہت سے مریضوں کو گرمی سے مرتے ہوئے دیکھا۔“

بوسٹن یونیورسٹی کی ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ تحقیقات سے اب وہ چیزیں باضابطہ ثابت ہورہی ہیں جس کا وہ برسوں سے مشاہدہ کر رہی ہیں مثلاً الرجی کی وجہ سے دمے کی بڑھتی ہوئی بیماری۔

رپورٹ کی شریک مصنفہ ڈاکٹر رینی سالاس کہتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں صحت کے بحران کا اولین اور سب سے اہم سبب ہیں۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈین ڈاکٹر لن گولڈمین کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیو ں سے صحت کے مسائل ”گزشتہ چند برس قبل کے مقابلے اب بہت زیادہ تیزی سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔"

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 84 ممالک میں سے 65 میں فوسل ایندھن (Fossil fuels)کے استعمال، جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بنتی ہے، پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔

ایک ماہر ماحولیات ڈاکٹر رچرڈ جیکسن کا کہنا تھا،''اس کی مثال یوں ہے کہ کوئی شخص کسی شدید بیمار مریض کو اس کی دیکھ بھال کے نام پر سگریٹ اور جنک فوڈ دے رہا ہو۔"

ج ا / ص ز (ایسوسی ایٹیڈ پریس)