عدالتی فیصلوں کے خلاف قانون سازی ہو تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی؟

ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی، کیا کوئی ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے جو عدالتی فیصلوں کو ختم کر دے؟ سپریم کورٹ

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 9 دسمبر 2021 11:08

عدالتی فیصلوں کے خلاف قانون سازی ہو تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 09 دسمبر 2021ء) : سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے خلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ایکٹ 2010ء کے ذریعے بحال ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ یہ سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔

عدالت نے آرڈیننس اور ایکٹ کے ذریعے بحال ہونے والے ملازمین کی فہرست طلب کرلی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران سوئی گیس اور اسٹیٹ لائف کے برطرف ملازمین کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی بھرتی ہونے والے ملازمین نکالے جاتے ہیں، کیا یہ بھی اتفاق ہے؟ پیپلزپارٹی نے آمریت کے برطرف شدہ ججز کو بھی بحال کیا تھا۔

(جاری ہے)

ہمارا انتخابی وعدہ تھا کہ ملازمین کو بحال کریں گے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا خلاف قانون برطرفیاں 1947ء سے ہو رہی ہوں گی، صرف ان چند ملازمین کو ہی کیوں بحال کیا گیا ہے؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ برطرفی کے بعد ملازمین نے عدالتوں سے رجوع کیا تھا،عدالتوں نے کئی ملازمین کو بحال کیا اورکئی کی برطرفی برقرار رکھی۔انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، عدالت کسی کو سزا دے تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے اسے بری کر سکتی ہے؟عدالتی فیصلوں کے خلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی، اسی انداز میں چلنا ہے تو آج تک جتنے لوگ نکالے گئے سب کو بحال کریں۔

جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ 2021ء سے پہلے کسی عدالت نے ملازمین کے خلاف فیصلہ نہیں دیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بنیادی سوال تو یہی ہے برطرف ملازمین کا معاملہ عدالت کیوں نہیں لے کر آئے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم معزول ججز کا معاملہ بھی عدالت نہیں لائے تھے۔ ہم نے معزول ججز کو بھی ایگزیکٹو آرڈر سے بحال کیا تھا۔ خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے2010ء کے ایکٹ میں کیوں نہیں لکھا کہ ملازمین کے ساتھ زیادتی ہوئی، اس لیے بحال کیا، بنیادی سوال پوچھ رہے ہیں آپ بار بار ججز کی بحالی پر آجاتے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ملازمین سیاسی انتقام پر نکالے گئے تو یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ میں لکھنا چاہئیےتھا، ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے جو عدالتی فیصلوں کو ختم کر دے، کیا عدالتی فیصلے پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے، جب عدالتوں نے ملازمین بحال نہیں کیے تو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے کیسے بحالی ہو سکتی ہے ۔ بعد ازاں درخواستوں پر مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔