پاکستان میں خوردنی تیل کی درآمد پر پیٹرولیم کے بعد دوسرے نمبر پر زیادہ سرمایہ خرچ ہوتا ہے،عمران علی چانڈیو

انسانی خوراک میںخوردنی تیل کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن غیر معیاری تیل کے استعمال سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،پی ایچ ڈی اسکالر

ہفتہ 21 مئی 2022 00:42

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2022ء) سندھ زرعی یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر عمران علی چانڈیو نے اپنی تحقیق میںکہا ہے کہ پاکستان میں خوردنی تیل کی درآمد پر پیٹرولیم کے بعد دوسرے نمبر پر زیادہ سرمایہ خرچ ہوتا ہے،انسانی خوراک میںخوردنی تیل کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن غیر معیاری تیل کے استعمال سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، یونیورسٹی کے ایگرونومی شعبے کے پی ایچ ڈی اسکالرعمران علی چانڈیو نی''سورج مکھی کی پیداوار بڑھانے کے لیے نائٹروجن کے موثر استعمال کے وقت اور طریقوں کا تعین'' کے عنوان سے کی گئی تحقیق کے بعد اسے پی ایچ ڈی ڈگری ایوارڈ کی گئی۔

یونیورسٹی کے انتظامی بلاک میں ایک مختصر تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کی، اس موقع پر اپنی تحقیق سے متعلق آگہی دیتے ہوئے عمران علی چانڈیو نے کہا ملک میں زراعت کو مختلف مسائل کا سامنا ہے جبکہ انسانی خوراک میںتیل کی ضرورت اور معیاری تیل کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میںخوردنی تیل کی مقامی پیداوار بہت کم ہے اس لئے تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیگر ممالک سے خوراک درآمد کی جاتی ہے جس پر بہت زیادہ رقم خرچ ہو رہی ہے، انہوں نے کہا ملک میں زرعی وسائل بہت زیادہ ہیں، جسے استعمال کرکے تیل کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ ملک میںخوردنی تیل ایک اہم مسئلہ ہے۔پاکستان اشیائے خوردونوش کی درآمد پر بڑے بل ادا کر رہا ہے، اس لیے ملک کے زرعی سائنسدان اور کاشتکار تیل والی فصلوں، دالوں اور دیگر غذائی فصلوں کی کاشت کرنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ ماہرین اس سلسلے میں نئی اقسام اور خالص بیج تیار کر کے کسانوں کو دیں تاکہ وہ زرعی ماہرین کے مشورے سے ایسی فصلیں لگا کر اس سے فائدہ اٹھا سکیں، عمران علی چانڈیو نے اپنے تحقیقی مقالے کی تھیسز وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری کو پیش کی،تقریب کے دورانڈین فیکلٹی آف کراپ پروڈکشن ڈاکٹر قمرالدین چاچڑ، سپروائزر ڈاکٹر محمد نواز کاندھڑو، ڈاکٹر قمر الدین جوگی، ڈاکٹر غلام مرتضی جامڑو اور اعجاز علی سومرو، سراج احمد چنا بھی موجود تھے۔