خواتین کی تعلیم پر افغان طالبان میں غیر معمولی اختلافات

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 16 فروری 2023 17:20

خواتین کی تعلیم  پر افغان طالبان میں غیر معمولی اختلافات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2023ء) افغانستان میں حکمران طالبان کی ایک بااثر شخصیت اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی ایک حالیہ تقریرکو افغان طالبان کی صفوں میں تقسیم کا ایک غیر معمولی عوامی مظاہر ہ قرار دیا جارہا ہے۔ حقانی کی اس تقریر کو طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ پر ایک ڈھکی چھپی تنقید کے طور پر دیکھا گیا۔

طالبان کے فیصلے کون کر رہا ہے؟

اگست 2021 ء میں طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد سے اس گروپ کی قیادت مبہم ہے اور اس بات کا تقریباً کوئی اشارہ نہیں ہےکہ ان کے فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ہیبت اللہ اخوندزادہ کی ہدایات کے پالیسی سازی پر گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے حکم پر طالبان حکومت نے چھٹی جماعت کے بعد یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں خواتین اور لڑکیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔

(جاری ہے)

ان پابندیوں نے ایک شدید بین الاقوامی ہنگامہ برپا کیا، جس سے افغانستان کی تنہائی ایک ایسے وقت میں بڑھ رہی ہے جب اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور ملک میں انسانی بحران مزید گھمبیر ہو رہا ہے۔ یہ پابندیاں طالبان حکومت کی سابقہ ​​پالیسیوں سے متصادم بھی دکھائی دیتی ہیں۔ طالبان حکام نے بارہا وعدہ کیا کہ لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت دی جائے گی لیکن گزشتہ سال انہیں واپس جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ اچانک واپس لے لیا گیا۔

’لوگوں کے زخموں پر مرہم‘

حقانی نے اختتام ہفتہ پر خوست میں ایک مدرسے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کہا، ''اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنا اور پورے نظام کی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہمارے فائدے میں نہیں ہے۔ یہ صورتحال مزید برداشت نہیں کی جاسکتی۔‘‘ حقانی کے حامیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ان کی تقریر کے ویڈیو کلپس میں انہیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اب جبکہ طالبان نے اقتدار حاصل کر لیا ہے تو ان کے کندھوں پر مزید زمہ داری کا بوجھ آگیا ہے اور ان کے بقول یہ زمہ داری صبر اور اچھے رویے اور لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی متقاضی ہے۔

حقانی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کو ''لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنا‘‘ چاہیے اور اس طرح کام کرنا چاہیے کہ لوگ ان سے اور مذہب سے نفرت نہ کریں۔

حقانی نے اخوندزادہ کا حوالہ نہیں دیا لیکن ان ریمارکس کو سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ انہی یعنی طالبان کے سپریم لیڈر سے منسوب کر رہے ہیں۔ حقانی نے خواتین کی تعلیم کے معاملے کا بھی ذکر نہیں کیا لیکن وہ ماضی میں عوامی سطح پر کہہ چکے ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کو اسکول اور یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

کابل حکومت کے اعلیٰ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حقانی کے تبصرے پر بظاہر ردعمل میں ان کا نام لیے بغیر کہا کہ تنقید نجی طور پر کی جاتی ہے۔ ''اگر کوئی امیر، وزیر یا کسی دوسرے عہدے دار پر تنقید کرتا ہے تو بہتر یہی ہے اور اسلامی تعلیمات بھی یہی کہتی ہیں کہ وہ عوامی اظہار کے بجائے اپنی تنقید براہ راست اور خفیہ طور پر اپنے مخاطب شخص پرکرے۔

‘‘

حقانی نیٹ ورک

سراج الدین حقانی طالبان کے ایک دھڑے کی قیادت کرتے ہیں، جسے حقانی نیٹ ورک کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ان کے خاندانی نام سے موسوم ہے اور اس کا مرکز مشرقی صوبے خوست میں ہے۔ اس نیٹ ورک نے برسوں تک امریکی زیرقیادت نیٹو فوجیوں اور سابق افغان حکومتی افواج کے خلاف جنگ لڑی اور یہ کابل میں شہریوں پر حملوں اور خودکش بم دھماکوں کے لیے بدنام تھا۔

امریکی فوجیوں اور افغان شہریوں پر حملوں کے لیے امریکی حکومت نے سراج الدین حقانی کے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے۔

تنہائی پسند اخوندزادہ

طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ تقریباً کبھی بھی عوامی سطح پر نظر نہیں آتے اور شاید ہی کبھی طالبان کے گڑھ جنوبی صوبے قندھار سے باہر نکلے ہوں۔

وہ اپنے آپ کو خواتین کے لیے تعلیم اور کام کے مخالف دوسرے مذہبی اسکالرز اور قبائلی رہنماؤں کے ساتھ گھیرے ہوئے ہیں۔

ان کی برسوں پرانی صرف ایک معروف تصویر موجود ہے۔ اخوندزادہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد صرف ایک بار کابل آئے تھے تاکہ وہ طالبان کے حامی علماء کی ایک اسمبلی میں تقریر کریں۔ اس تقریب کی میڈیا کوریج میں بھی نہیں دکھایا گیا۔

'ایسے نہیں چل سکتا‘

ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کے لیے سینیئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین نے کہا کہ طالبان نے عام طور پر اندرونی اختلافات سے پردے کے پیچھے نمٹا ہے اور اس سلسلے میں حقانی کے تبصرے ''ایک بڑا کشیدگی ہیں۔

‘‘ کوگل مین نے کہا کہ طالبان لیڈروں کا ایک ہی وسیع وژن ہے لیکن ''قندھار میں موجود طالبان رہنما الگ تھلگ ہیں اور وہ روز مرہ کے کاموں میں ملوث نہیں ہیں۔‘‘

لاہور میں مقیم ایک سینئیر صحافی اور طالبان پر متعدد کتابوں کے مصنف احمد رشید کا کہنا ہے کہ وہ اخوندزادہ اور قندھار میں مقیم ان کے حامیوں سے تبدیلی کی توقع نہیں رکھتے۔

احمد رشید کےمطابق امریکہ اور نیٹو کی دھمکیوں کے تناظر میں متحد رہنا طالبان کے لیے ایک ترجیح ہے اور یہ محض ایک شک ہے کہ ان کی صفوں میں ''کسی قسم کی بغاوت‘‘ موجود ہے۔ تاہم اس صحافی کے بقول طالبان کی قیادت میں جو لوگ حکومت کے بوجھ سے نمٹ رہے ہیں وہ سمجھ چکے ہیں کہ وہ اس طرح جاری نہیں رہ سکتے۔

ش ر ⁄ ک م ( اے پی)