ملک کے پسے ہوئے طبقے کی مالی مشکلات کو کم کرنا بھی وفاقی بجٹ کی اہم ترجیحات میں شامل ہے، وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار

جمعہ 9 جون 2023 22:41

ملک کے پسے ہوئے طبقے کی مالی مشکلات کو کم کرنا بھی وفاقی  بجٹ کی اہم ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 جون2023ء) ملک کے پسے ہوئے طبقے کی مالی مشکلات کو کم کرنا بھی وفاقی بجٹ کی اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ جمعہ کو وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام غربت سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان کا ایک فلیگ شپ پروگرام ہے مالی سال 2021-22 میں اس پروگرام کے لئے 250 ارب روپے مختص کئے گئے تھے موجودہ حکومت نے بجٹ 2023 میں 360 ارب روپے تک بڑھا دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران اس مد میں 40 ارب روپے کا مزید اضافہ کرکے 400 ارب روپے کیا گیا۔ اگلے مالی سال کے دوران حکومت نے اس مد میں 450 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس پروگرام کے تحت چلنے والی چند اہم اسکیمز مندرجہ ذیل ہیں۔

(جاری ہے)

مالی سال 2023-24 میں بی آئی ایس پی کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو 8,750 روپے فی سہ ماہی کے حساب سے بینظیر کفالت کیش ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی جس کے لئے 346 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

حکومت یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آئندہ مالی سال میں افراط زر کی مماثلت سے اس میں اضافہ بھی کرے گی۔ بینظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ کار 60 لاکھ بچوں سے بڑھا کر تقریباً83 لاکھ تک کیا جائے گا جس میں 52 فی صد تعداد بچیوں کی ہے۔ اس مقصد کیلئے 55 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔ 92 ہزارطالب علموں کو بینظیر انڈر گریجویٹ سکالر شپ دیا جائے گا جس کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

بینظیر نشوونما پروگرام تمام اضلاع میں جاری رہے گا اور پروگرام سے مستفید ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھا کر 15 لاکھ کی جائے گی جس کے لئے 32 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لئے 35 ارب روپے سے مستحق افراد کے لئے آٹے چاول چینی دالوں اور گھی پر ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ مستحق افراد کے علاج اور امداد کیلئے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔

یونانی ادویات عام طور پر دیہاتی اور کم آمدنی والے افراد استعمال کرتے ہیں جن کی سہولت کیلئے یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح 1 فی صد کی جارہی ہے۔ استعمال شدہ کپڑے کم آمدنی والے لوگ خریدتے ہیں اور ان کی درآمد پر اس وقت 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جس کو ختم کیا جا رہا ہے۔