پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام دو روزہ ’’انوینشن ٹو انوویشن‘‘سمٹ شروع ہو گئی

منگل 27 فروری 2024 18:23

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 فروری2024ء) پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی انوینشن ٹو انوویشن سمٹ میں ماہرین نے کہا ہے کہ حکومت، صنعت اور یونیورسٹیاں باہمی تعاون کو فروغ دیں تو پاکستان کو تمام بحرانوں سے نکال کر ترقی یافتہ ملک کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کے زیر اہتمام5 سال کے وقفے کے بعد منعقد ہونے والی دو روزہ 9ویں انوینشن ٹو انوویشن سمٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

تقریب میں چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر، وائس چانسلرپنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، چیئرمین پاکستان سائنس فانڈیشن ڈاکٹر محمد اکرم شیخ، چیف ایڈوائزر یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی عابد کے شیروانی، ڈائریکٹر اورک پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد، محققین،صنعتوں سے ماہرین، فیکلٹی ممبران اور طلباطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

(جاری ہے)

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا ہے کہ نئی ایجادات کرنے والی اقوام دنیا پر راج کر رہی ہیں جس کے لئے تعلیمی اداروں کا کردار اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے متعدد ترقی یافتہ ممالک 1960 میں پاکستان سے پیچھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت انوویشن میں پاکستان 190 ممالک میں 88 ویں نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پیچھے رہنے کی بنیادی وجہ تعلیم و تحقیق پر خرچ نہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر 0.24 فیصد خرچ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کا کام صنعتوں کی ضروریات کے مطابق انوویشن دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم آئی ٹی کے گریجوایٹس نے جو کمپنیاں بنائی ہیں ان کا حجم دنیا کی 11 ویں بڑی معیشت کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آگے بڑھانے کے لئے یونیورسٹیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے طلبا میں انٹرنپنیورشپ کے رحجان کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اطلاقی تحقیق معیشت کی مضبوطی کیلئے اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلیکچوئل پراپرٹی اینڈ ریسرچ کمرشلائزشن پالیسی فریم ورک بنا رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ اکیڈیمیا، انڈسٹری اور پبلک سیکٹر کے باہمی تعاون کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اس سمٹ میں انڈسٹری اور حکومت کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات انڈسٹری کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر آف کامرس کا ایک دفتر ہیلی کالج آف کامرس میں کھولا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمٹ کا جو سلسلہ رکا ہوا تھا اسے پانچ سال بعد دوبارہ شروع کیا گیا ہے جس کیلئے ڈائریکٹر اورک اور ان کی ٹیم کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔

ڈاکٹر اکرم شیخ نے کہا کہ طویل وقفے کے بعد سمٹ کے آغاز پروائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود مبارکبادکے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمٹ میں 56 سٹالزاور 79 پوسٹرز میں طلبا اپنے آئیڈیاز پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمٹ تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں عملی تربیت کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں رٹا سسٹم کی بجائے تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ عابد شیروانی نے کہا کہ سمٹ کا مقصد تحقیقی اداروں میں ہونے والی تحقیق کو پوری دنیا تک پہنچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 53 ٹریلین ڈالرز کے قدرتی ذخائراور 66فیصد نوجوان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانی و قدرتی وسائل کے درست استعمال سے ملک ترقی کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اڑھائی کروڑ بچوں کو سکول نہیں دے رہے، یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ا نہوں نے کہا کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود سبزیاں دالیں امپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد نے کہا کہ اورک کا مقصد یونیورسٹیوں میں تحقیقی کلچر کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمٹ میں مختلف مصنوعات اور ماڈلزکی نمائش،اور ل اور پوسٹر پریزنٹیشز سے مختلف سائنسدان، ماہرین اور طلبا استفادہ کر سکیں گے۔بعد ازاں شرکا نے پاکستان کی مختلف صنعتوں اور تعلیمی اداروں کی جانب سے مختلف شعبوں میں کی گئی نئی تحقیق کی بنیاد پر مبنی پراڈکٹس کے سٹالز کا دورہ کیا اور انہیں خوب سراہا۔