سابق نگراں وزیر صحت نے سندھ کے شعبہ صحت میں انتظامی اور مالی بے قاعدگیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا

نگراں سیٹ اپ سے پہلے کی حکومت کی جانب سے مجھے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا،مجھے کسی نے فون کیا نہ دبائو ڈالا،نگراں وزیراعلیٰ سندھ میرے کام میں روڑے اٹکاتے رہے،ڈاکٹرسعدخالدنیاز خیراتی اداروں کو دی جانے رقوم اور روبوٹک سرجری کے روبوٹس کی خریداری کے حوالے سے بڑے انکشافات

اتوار 10 مارچ 2024 16:25

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 مارچ2024ء) سابق نگراں وزیر صحت ڈاکٹر سعد خالد نیازنے کہا ہے کہ نگراں سیٹ اپ سے پہلے کی حکومت کی جانب سے مجھے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا،مجھے کسی نے فون کیا نہ دبائو ڈالا،نگراں وزیراعلیٰ سندھ میرے کام میں روڑے اٹکاتے رہے۔خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سعد نیاز نے نگراں سیٹ اپ میں شعبہ صحت کی مالی اور انتظامی بے قاعدگیوں کے حوالے سے کئی انکشافات کیے۔

ڈاکٹر سعد نیاز نے بتایا کہ سندھ میں کسی بھی نگراں وزیر کے سیکرٹریز اس سے مشاورت یا مرضی کے بغیر تعینات کیے گئے، میں نے کوشش کی کہ سیکرٹری ہیلتھ سے تعلقات اچھے بنا کر رکھیں اور کام کریں۔روبوٹک سرجری کے حوالے سے تنازع پر انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرز کی اکثریت میری تائید کرے گی کہ بے شک روبوٹس اچھے ہوتے ہیں، لیکن جیسی ہماری صورتحال ہے ضروری ہے کہ 400کروڑ روپے روبوٹ کے بجائے صحت کے دیگر شعبوں میں خرچ کریں۔

(جاری ہے)

میں چاہتا تھا بنیادی صحت کے مراکز پر زیادہ توجہ دی جائے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ روبوٹس کی جو قیمتیں دی گئی تھیں وہ بہت زیادہ تھیں، انگلینڈ میں اس روبوٹ کی قیت 6 لاکھ پائونڈ ہے، جبکہ اسے ایک ارب روپے میں خرید گیا جس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ 25کروڑ روپے کی چیز ایک ارب روپے میں آئے تو اس میں چیک کرنے کی بڑی گنجائش ہے۔سابق نگراں وزیر صحت نے کہا کہ ایک بڑا اسٹیپ(قدم)جو ہم نے لیا وہ یہ تھا کہ جس نے بھی حکومت سندھ سے پیسے لیے ہوئے ہیں، وہ ان پیسوں کی ڈیٹیلز(تفصیلات)فراہم کریں کہ وہ کیسے خرچ ہو رہے ہیں، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت کا حق ہے، اس میں ہم نے ان سے تین چیزیں مانگی تھیں کہ آپ ہمیں اپنے اسٹاف اور سیلریز کا بتائیں تاکہ ہم گورنمنٹ فیسیلیٹز کا موازنہ کرسکیں، فی دن کے اخراجات اور روٹین کے اخراجات دے دیں تاکہ ہم موازنہ کرسکیں حکومتی فیسیلیٹیز کے اخراجات کا اور خیراتی اداروں کا، خاص طور پر وہ ادارے جن کو حکومت سندھ بہت زیادہ پیسے دے رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم نے فنڈنگ کسی کی نہیں روکی۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سول اور جناح کا بجٹ ملا کر 15 ارب روپے ہے، اس سال انڈس کا بجٹ 8 بلین ہے، گمبٹ میں 7 بلین، ایس آئی یوٹی کا 15 بلین ہے، خیراتی ادروں کا بجٹ 90 ارب روپے ہے۔ اگر ان اداروں کی تفصیلات مل جائیں تو یہ جاننا آسان ہوجائے گا کہ ان کی کوسٹ (قیمت)سرکاری ادارے سے کم ہے یا نہیں، یہ خیراتی ادارے ہیں تو ان کی کوسٹ کم ہونی چاہیے۔

جے ڈی سی تنازع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میرے پاس ایک سمری آئی کہ جے ڈی سی کی ایک لیب کو 2.2 ارب روپے اپروو کیے جائیں یا اس پر کمیٹی بنادی جائے، میرے پاس کیبنیٹ ایجنڈے کی لسٹ آئی تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہی جس پر کہا گیا کہ آپ موجود نہیں تھے تو یہ سمری بنا لی گئی، میں نے اس دن کا ریکارڈ نکلوایا تو میں وہاں موجود تھا، اس طرح مجھے بائی پاس کرنے کی کوشش کی گئی جس پر میں نے اعتراض اٹھایا۔

سمری میں یہ بھی شامل تھا کہ اس ادارے کو دس سال تک 2 ارب روپے سالانہ فراہم کیے جائیں جو کہ مجھے لگا کہ نگراں حکومت کا یہ مینڈیٹ نہیں، میں نے یہ سمری منظور ہی نہیں ہونے دی۔ جے ڈی سی کے معاملے کا طریقہ کار ہی غلط تھا، منسٹر کو بائی پاس کرکے جو سمری گئی وہ طریقہ غلط تھا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ بطور نگراں وزیر صحت میں ناکام رہا اور میری ناکامی کے ذمہ دار نگراں وزیر اعلی جسٹس(ر)مقبول باقر تھے جو میرے کام میں روڑے اٹکاتے رہے۔