یوم تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں ڈا ؤیونیورسٹی میں آگہی سیشن کا انعقاد

جمعہ 15 مارچ 2024 21:55

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مارچ2024ء) کراچی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام یوم تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم15مارچ کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد سرگرمیوں کے متعلق آگہی سیشن سے جمعے کی صبح آن لائن خطاب کرتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ آج بچے سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ انداز میں جو سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں اس کے میں ان کا کوئی قصور نہیں اس کی ذمہ داری ہماری نسل کے اساتذہ، دانشوروں اور مذہبی اسکالرز پر عائد ہوتی ہیہم علم و تحقیق کے میدان میں وہ کردار ادا نہیں کر سکے جو کرنا چاہیے تھا، ہم اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھا نہیں سکے ٹیکنالوجی کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے بس درست اور غلط میں فرق سمجھانے کی ضرورت ہے آگاہی سیشن کا ویڈیو لنک کے ذریعے ڈا یونیورسٹی کے دونوں کیمپس میں بیک وقت انعقاد کیا گیا اوجھا کیمپس میں عبدالقدیر خان آڈیٹوریم اور ڈی ایم سی کیمپس کے معین آڈیٹوریم میں اہتمام کیا گیا معین آڈیٹوریم میں وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی، پرووائس چانسلر ڈاکٹر نازلی حسین اشرافہ پرنسپل ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر صبا سہیل اور دیگر اساتذہ و طلبہ کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی جبکہ اوجھا کیمپس میں پرنسپل ڈاؤانٹرنیشنل میڈ یکل کالج کی پرنسپل پروفیسر زیباحق،اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد بھی موجود تھی اس موقع پر اس موقع پر بذریعہ بذریعہ ویڈیو لنک ایچ ای سی ہال اسلام آباداسلام سے اپنے خطاب میں ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بچوں کو اپنی حدود سے باہر جاتا دیکھ کر خوف آتا ہے اس کی روک تھام کے لیے سنجیدگی سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اس موقع پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام اباد کے ڈائریکٹر جنرل اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ، پروفیسر ڈاکٹر ضیا الحق نے کہا کہ ہمیں دکھ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو نہیں بچا سکے اور نہ انہیں سمجھا سکے کہ ہم نے پاکستان خدا سے اس وعدے پر لیا تھا کہ ہم اسے مدینہ کی ریاست کا عکس بنانا ہے ہمیں اپنے بچوں کو بتانا تھا کہ اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس مملکت خداداد پاکستان اور اس کے ادارے ہماری "ریڈ لائن" ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ گجرانوالہ میں جن بچوں کو سزائیں ہوئی ان کے خاندان کے مطابق ان کی نسلوں میں کوئی ایسیجرم کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ان میں سے ایک بچے کے والد مالی طور پر اتنے مستحکم ہیں کہ پاکستان میں قائم 170 جامعات کو خرید سکتے ہیں لیکن وہ اپنے بچے کو سزا سے نہیں بچا سکے کیونکہ ثبوت و شواہد اس قدر مضبوط تھے اس لیے یونیورسٹی اور کالجوں کے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ سال میں ایک سے زائد مرتبہ آگاہی سیشن منعقد کیے جائیں سال میں چار مرتبہ تو ایسے سیشن کا انعقاد ضروری ہے جن میں بچوں کو سمجھایا جائے کہ کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق لیگل کمیشن کے نمائندے را عبدالرحمان ایڈوکیٹ نے آن لائن ا گہی سیشن سے خطاب میں کہا کہ یہ بات بحیثیت قوم ہمارے لیے باعث تشویش ہے کہ توہین آمیز مواد کوپھیلانے کے الزام میں جن 300 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں یہ سب پاکستان کے شہری ہیں اور ان میں سے 107 بچے بیچلر اور ماسٹر ڈگری کے طالب علم میں یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان کس سمت میں جا رہے ہیں ہمیں سوچنا ہوگا اور اس کی روک تھام کرنا ہوگی ایڈوکیٹ را عبدالرحمان نے کہا کہ چار لاکھ اکانٹس توہین امیز مواد پھیلا رہے ہیں اپنے نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اداروں ایف آئی اے اور پی ٹی اے کے پاس ایسے سسٹم موجود ہیں کہ یہاں اکانٹ کی شناخت کی جا سکے اس لیے کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ کوئی بھی ایسا مواد پھیلانے کے بعد اس کا جرم سامنے نہیں آ سکے گا نہ صرف جرم بلکہ ثبوت کے ساتھ شناخت بھی واضح ہو جائے گی انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں اتنا انتشار اور نفرت انگیزی نہیں جتنی سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے یہ درحقیقت پاکستان کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کی سازش ہے۔