وزیر صحت خیبرپختونخوا کی زیر صدارت صحت کارڈ پلس کا جائزہ اجلاس

صحت کارڈ پر امراض قلب کی بیماریوں پر 18 ارب، سی سیکشن پر چار ارب ،کیمو تھراپی پر ساڑھے تین ارب سے زائد خرچ ہوچکے ہیں، سید قاسم علی شاہ

پیر 18 مارچ 2024 22:57

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 مارچ2024ء) خیبر پختونخوا کے وزیر صحت سید قاسم علی شاہ کی صدارت میں صحت کارڈ پلس کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا اجلاس میں چیف ایگزیکٹیو صحت کارڈ پلس ڈاکٹر ریاض تنولی، ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شوکت علی، ڈائریکتر صحت کارڈ ڈاکٹر اعجاز، فیاض نور نمائندہ سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن و دیگر نے شرکت کی۔بریفنگ کے بعد جاری اپنے بیان میں وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے بتایا کہ پہلے رمضان سے لیکر پانچویں رمضان 16 مارچ تک صحت کارڈ پر ملک بھر کے مختلف ہسپتالوں میں 8 ہزار افراد کا علاج شروع ہوا ہے جس پر 172 ملین روپے سے زائد کے اخراجات ہوئے ہیں۔

ہسپتالوں میں صحت کارڈ کاونٹر پر سٹیٹ لائف انشورنس کا عملہ 24 گھنٹے موجود ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ جولائی 2023 میں صحت کارڈ میں اصلاحات کے بعد سے لیکر اب تک سرکاری و نجی ہسپتالوں میں اخراجات کا تناسب برابر رہا ہے۔

(جاری ہے)

صحت کارڈ پر سب سے زیادہ اخراجات امراض قلب کی بیماریوں پر 18 ارب، سی سیکشن پر چار ارب جبکہ کیمو تھراپی پر ساڑھے تین ارب سے زائد خرچ ہوچکے ہیں۔

داخلوں کے حساب سے پشاور کے ایم ٹی آئیز ٹاپ پر جارہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ منصوبے میں مزید بہتری لانے کیلئے آپشنز پر غور کررہے ہیں تاکہ پختونخوا کے عوام کو صحت کارڈ کے تحت مُفت اور معیاری علاج تک رسائی ممکن ہوسکے۔اس سے بریفنگ کے دوران وزیر صحت کو بتایا گیا کہ سسٹینیبل ڈویلپمنٹ گول نمبر3 کے ہدف 8 اور پختونخوا کی ہیلتھ پالیسی 2018 کے تحت صوبہ میں صحت کارڈ کے منصوبے کا آغاز کیا گیا۔

جس کے تحت شہریوں کی صحت کی دیکھ بھال اور سستے اور مفت صحت سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت صوبہ کی ایک کروڑ سے زائد خاندان صحت کارڈ پلس کے استعمال کی اہلیت رکھتے ہیں۔ صحت کارڈ ایک پالیسی بورڈ کے تحت چلتا ہے اور وزیر صحت اس کا چئیرمین ہوتا ہے۔ وزیر صحت کو بتایا گیا کہ سٹیٹ لائف کو فی خاندان 2858 سالانہ دیے جارہے ہیں جس کے تحت دو لاکھ تک کا مُفت سیکنڈری کئیر علاج کیا جاتا ہے جبکہ ٹرشئیری کئیر میں یہ حد چار لاکھ ہے۔

جس کے تحت 29.40 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں جو کہ ماہانہ 2.5 سے 3 ارب تک ہوتی ہیں جس میں 18 سو سے لیکر 2 ہزار تک کے مُختلف بیماریوں کا علاج شامل ہیں۔ وزیر صحت کو بتایا گیا کہ صحت کارڈ کے تھرڈ پارٹی ایوالویشن کے مطابق مریضوں کے اطمینان کی شرح 97 فیصد ہے۔ اس پروگرام کے تحت اب تک 30 لاکھ سے زائد لوگوں کا علاج ہوچکا ہے جس پر 76 ارب سے زائد کی رقم خرچ ہوچکی ہے۔

صحت کارڈ کی وجہ سے لوگوں نے شادی شدہ کارڈز بناکر خاندانوں کا اندراج بھی شروع کردیا ہے۔ صحت کارڈ کے تحت مفت علاج کیلئے لوگ اب شادی شدہ شناختی کارڈز بنوانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔سید قاسم علی شاہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ صحت کارڈ کے تحت پورے پاکستان میں 753 جبکہ پختونخوا میں 118 ہسپتال صحت کارڈ کے پینل پر ہے جس میں 311 سرکاری جبکہ 442 پرائیویٹ ہسپتال شامل ہیں۔

صحت کارڈ کے چار پروگرام پارٹنرز ہیں جن میں محکمہ صحت، سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، نادرا اور سروس پرووائڈرز شامل ہیں۔ وزیر صحت کو یہ بھی یاددہانی کرائی گئی کہ ایک ارب ریزرو فنڈ کی تخصیص سے مُفت کڈنی و لیورٹرانسپلانٹ کا اجرا ہوسکتا ہے۔ پچھلے مالی سال میں کے پی ایم ٹی آئیز نے صحت کارڈ سے 8.7 ارب روپے آمدنی حاصل کی۔ ایم ٹی آئیز سالانہ 46.8 ارب روپے گرانٹ ان ایڈ کے طور پر بھی لیتے ہیں۔