کیا اکیلا پن جمہوریت کے لیے خطرہ ہے؟

DW ڈی ڈبلیو پیر 18 مارچ 2024 20:40

کیا اکیلا پن جمہوریت کے لیے خطرہ ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مارچ 2024ء) جرمنی میں تنہائی کو اکثر ایک خاموش وبائی بیماری قرار دیا جاتا ہے۔ وفاقی شماریاتی دفتر کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق یہاں 10 سال سے زیادہ عمر کے ہر چھ افراد میں سے ایک شخص اکثر تنہائی محسوس کرتا ہے۔ مجموعی طور پر جرمنی میں ایسے افراد کی تعداد 12.2 ملین بنتی ہے۔

ماہرین نفسیات تنہائی یا اکیلے پن کو 'سوشل آئیسولیشن‘ سے مختلف قرار دیتے ہیں۔

ان کے مطابق تنہائی کسی شخص کے مطلوبہ اور حقیقی سماجی تعلقات کے درمیان تضاد کا نام ہے۔

سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کے نوجوان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں 18 سے 29 سال کی عمر کے ایک چوتھائی نوجوان کہتے ہیں کہ وہ اکثر اکیلا پن محسوس کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والی فیملی منسٹر لیزا پاؤز تنہائی کو آج کے دور کا ''سب سے اہم مسئلہ‘‘ قرار دیتی ہیں۔

ان کے مطابق تنہائی صرف دل کی بیماریوں، فالج، ڈیمینشیا اور ڈپریشن جیسے امراض سے ہی منسلک نہیں ہے بلکہ یہ سماجی ہم آہنگی کو بھی کمزور بناتی ہے۔

جرمنی کی خاندانی امور کی وزارت کی اعانت سے''انتہائی اکیلا پن‘‘ کے نام سے ایک تحقیق کروائی گئی ہے، جس کے مطابق تنہائی جمہوریت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ محققین کے مطابق تنہائی اور جمہوریت مخالف رویوں کے درمیان بھی تعلق پایا جاتا ہے۔

اکیلے پن سے عوامیت پسندی، سازشی نظریات پر یقین اور آمرانہ اور پرتشدد رویوں کی طرف جھکاؤ بڑھ جاتا ہے۔

ماہر عمرانیات اور اس مطالعے کے مصنفین میں سے ایک، کلاؤڈیا نوئے تنہائی کے جمہوریت مخالف رویوں سے منسلک ہونے کے حوالے سے کہتی ہیں،'' یہ ایک مسلمہ حقیقت تو نہیں ہے لیکن یہاں ایک ربط ضرور پایا جاتا ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ طویل عرصے تک تنہائی کا شکار رہتے ہیں، وہ دنیا کو زیادہ منفی انداز سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، ان کے لیے یہ مزید تاریک اور خطرناک ہو جاتی ہے۔

ایسے افراد دوسرے لوگوں پر کم اعتماد کرتے ہیں بلکہ ان کا جمہوری اداروں پر بھی بھروسہ کم ہو جاتا ہے۔

کلاؤڈیا نوئے کے مطابق یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیوں کہ جمہوریت سماجی شرکت سے پروان چڑھتی ہے۔ اسی طرح جمہوریت کی حمایت کا انحصار اس بات پر ہے کہ ایک شخص مجموعی طور پر خود کو معاشرے سے کتنی مضبوطی سے جُڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ''(ہم میں) کمیونٹی کی یا مل جل کر رہنے کی خواہش یقیناً اب بھی بہت مضبوط ہے۔

ہم کو اب بھی اس بات کا گہرائی سے احساس ہے کہ شاید ہم دوسروں کے بغیر اچھی زندگی نہیں گزار سکتے۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں، ''دائیں بازو کی عوامیت یا انتہا پسند جماعتیں نوجوانوں کو کمیونٹی کا (حصہ ہونے کا) یہی احساس دلاتی ہیں اور بیک وقت خوف کا ایک بیانیہ بھی پیش کرتی ہیں۔‘‘

جرمن یوتھ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ماہر عمرانیات اور نوجوانوں میں انتہا پسندی کی تحقیق کرنے والے ڈاکٹر بیون ملبراٹ تاہم کہتے ہیں کہ اس بات کے کوئی واضح شواہد نہیں ہیں کہ آج کل کے نوجوان پچھلی نسلوں کے مقابلے میں سیاسی طور پر زیادہ انتہاپسندانہ خیالات رکھتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''آج کل تاثر یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان انتہا پسند ہوتے جا رہے ہیں لیکن میں کہوں گا کہ اس بارے مین محتاط اندازہ ہی لگانا چاہیے۔ ہمیشہ سے ہی انتہا پسند نوجوانوں کی تحریکیں موجود رہی ہیں۔‘‘

تاہم ڈاکٹر بیون ملبراٹ کا یہ ضرور کہنا ہے کہ نوجوانوں میں انتہا پسندی کے مسئلے کے بارے میں چوکنا رہنا ضروری ہے۔

انہوں نے سن 2019 کی ''شیل یوتھ اسٹڈی‘‘ کی طرف اشارہ کیا، جس کے جواب دہندگان میں سے تقریباً ایک تہائی نوجوان اپنے رویوں میں دائیں بازو کی عوامیت پسندی کا رجحان رکھتے تھے۔

ملبراٹ کے مطابق نوجوانوں کو انتہاپسندی کی طرف جانے سے روکنے کے لیے تنہائی سے نمٹنا اس مسئلے کے متعدد حلوں میں سے ایک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسکولوں میں سیاسی موضوعات سے متعلق تعلیم، جرمنی کی نازی تاریخ کے بارے میں آگاہی اور جمہوری عمل سے جڑے رہنے کا احساس سبھی اہم ہیں۔ ان کے مطابق نوجوانوں کو جمہوری عمل میں حصہ لینے کے مزید مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

ہیلن وہٹل / ا ا / م ا