ہم وہ ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں

DW ڈی ڈبلیو منگل 19 مارچ 2024 13:00

ہم وہ ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مارچ 2024ء) اس ڈاکیومینٹری میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے بائیس جڑواں بہن بھائیوں کی آٹھ ہفتوں کے لیے خوراک تبدیل کی۔ ہر جوڑے میں سے ایک کو آٹھ ہفتوں کے لیے سبزیوں پر مبنی خوراک جبکہ دوسرے کو گوشت اور سبزیوں پر مشتمل خوراک دی گئی تھی۔ آٹھ ہفتوں کے بعد دونوں گروپوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا تو نتائج حیرت انگیز نکلے۔

سبزیوں کھانے والے افراد کے اعضاء کے اردگرد جمع چربی میں کمی واقع ہوئی تھی، جس سے ان میں دل کی بیماریوں کا خطرہ کم ہوا تھا۔ اس تحقیق میں شامل کچھ افراد کو ہائی بلڈ پریشر کی شکایت بھی تھی۔ آٹھ ہفتوں کے بعد سبزیوں پر مبنی خوراک کھانے والوں کا بلڈ پریشر کافی حد تک نارمل ہوا تھا۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی متوقع مدت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا تھا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اس تحقیق کے لیے منتخب شدہ دونوں غذائیں صحت مند تھیں۔ سبزیوں پر مشتمل خوراک میں کسی قسم کا گوشت یا جانوروں کی مصنوعات جیسے انڈے یا دودھ شامل نہیں تھے۔ جبکہ دوسری قسم کی خوراک میں مرغی، مچھلی، انڈے، پنیر، دودھ سے بنی دیگر مصنوعات شامل تھی۔ اس کے باوجود جس گروپ کو صرف سبزیوں پر مشتمل خوراک دی گئی، ان کی آٹھ ہفتوں کے بعد صحت دوسرے گروپ سے بہتر تھی۔

میں وہ ڈاکیومینٹری دیکھ کر کافی متاثر ہوئی۔ میں پچھلے کچھ مہینوں سے اپنے کھانے میں سبزیوں کا زیادہ استعمال کر رہی ہوں۔ چین میں سبزیاں خوراک میں شامل کرنا آسان تھا۔ چینی ہماری طرح سبزیوں کو بھون کر نہیں پکاتے۔ وہ زیادہ تر سبزیاں ان کی قدرتی حالت میں ہی کھاتے ہیں۔ پالک اور انڈے کی ڈش میری پسندیدہ تھی۔ اس کے لیے وہ پالک کو ذرا سا بھون کر اس میں انڈے شامل کر دیتے تھے۔

وہاں ہر ریستوران میں سبزیوں والے پکوان اور مختلف اقسام کے سلاد آسانی سے مل جاتے تھے۔ جگہ جگہ پھلوں اور پھلوں کے رس کی دکانیں بھی ہوتی تھیں۔

پاکستان میں لوگوں کا رہن سہن مختلف ہے۔ یہاں کوئی گھر آ جائے تو اس کی تواضع گوشت کے پکوانوں سے کی جاتی ہے۔ گھر میں جس دن سب افراد موجود ہوں اس دن کھانے میں گوشت پکایا جاتا ہے۔ سلاد کے نام پر ایک پلیٹ میں کھیرا، پیاز اور ٹماٹر کاٹ لیتے ہیں۔

نہ کسی کو گوشت پورا ملتا ہے نہ سلاد۔

سبزی پکائیں تو اسے اتنا بھونتے ہیں کہ اس کا تمام فائدہ ختم ہو جاتا ہے۔ دال پکائیں تو اسے دو کپ تیل کا تڑکہ لگا کر کھاتے ہیں۔ شام میں کچھ کھانے کا دل ہو تو یا تو بازار سے پکوڑے اور سموسے آ جاتے ہیں یا گھر میں بنا لیے جاتے ہیں۔ آپ ہماری سٹریٹ فوڈ دیکھ لیں۔ تکہ، کباب، سجی، فرائڈ چکن برگر، پیزا، شوارما اور جانے کیا کیا۔

کوئی ایک چیز جو صحت بخش ہو۔ سونے پر سہاگہ ہمارے ہاں ورزش کا ٹرینڈ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواتین گھر سے نکل نہیں سکتیں، جو نکل سکتیں ہیں انہیں آرام سے چہل قدمی کرنے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ آج تک کسی حکومت نے عوام کی صحت کو اپنا ایجنڈا نہیں بنایا۔

ہم جو کھاتے ہیں اس کا اثر ہماری صحت پر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر بھی ہمارا شمار صحت مند اقوام میں نہیں ہوتا۔

ہم موٹاپے، سستی اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہیں۔ ہمارے ہر دوسرے گھر میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے مریض موجود ہیں۔ اپنے بڑوں کو ہسپتال لے جاتے لے جاتے ہمارے ہسپتال جانے کی باری آ جاتی ہے۔ پھر حال کچھ یوں ہوتا ہے کہ ابا جی بھی وہی دوائی کھا رہے ہوتے ہیں اور ہم بھی۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 40 ملین بالغ افراد ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔

ماہرینِ امراضِ قلب کے مطابق 2016ء کے بعد سے دل کی بیماریوں سے جڑی دیگر بیماریوں کی وجہ سے پاکستان میں ہونے والی اموات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2020ء میں پاکستان میں دل کی بیماری سے 240,720 افراد موت کا شکار ہوئے۔

ڈاکٹر ان بیماریوں کی وجہ ہماری غیر صحت بخش خوارک کے ساتھ ساتھ تمباکو نوشی، نمک کے زیادہ استعمال اورجسمانی غیرفعالیت کو قرار دیتے ہیں۔

ہم اپنی خوراک اور رہن سہن میں تھوڑی سی تبدیلی لا کر اپنے آپ کو بہت سی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی خوراک سے تھوڑا سا گوشت اور بہت سا تیل اور گھی کم کرنا ہوگا۔ تازہ سبزیاں اور پھلوں کا اضافہ کرنا ہوگا اور کسی بھی قسم کی ورزش کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہوگا۔

کہیں کیا آپ اپنی زندگی میں اتنی سی تبدیلی لانے کے لیے تیار ہیں؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔