اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کے لیے قطر پر دباﺅ‘تنقید پر دوحہ کا اظہار ناراضگی

قطر کا ردعمل”فائٹ بیک“ہے امریکی کانگریس اور نیتن یاہو کی تنقید سے قطر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے والا ہے.امریکی ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 27 اپریل 2024 15:39

اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کے لیے قطر پر دباﺅ‘تنقید پر دوحہ ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 اپریل۔2024 ) اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی میں قطر کے کردار پر تنقید نے دوحہ کو اپنے نقادوں کو جواب دینے پر مجبور کر دیا ہے جو ایک غیر معمولی بات ہے قطر نے 2012 سے امریکہ کی حمایت کے ساتھ حماس کی سیاسی قیادت کی میزبانی کی ہے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے لیے کئی مہینوں سے پس پردہ بات چیت میں مصروف ہے لیکن اب مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور قطر پر خاص طور پر اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے حماس پر دباﺅ ڈالنے کے مطالبوں کے پیش نظر دوحہ نے خبردار کیا ہے کہ وہ ثالث کے طور پر اپنے کردار سے دستبردار ہو سکتے ہیں.

(جاری ہے)

مشرق وسطی کے امور پر امریکی تجزیہ کار نیل کوئلیم کا کہنا ہے کہ قطر کا ردعمل ثالثی کے اصولوں کے منافی تھا واشنگٹن میں قائم ”چیتھم ہاو¿س“ سے وابستہ کارنیل نے کہا کہ ثالث عام طور پر تنقید کا جواب نہیں دیتے کوئلیم نے کہا کہ قطریوں کو اسرائیلیوں، نیتن یاہو کی جانب سے براہ راست اور امریکی کانگریس کے ارکان کی جانب سے متعدد بار تنقید کا سامنا ہوا ہے میرے نزدیک ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے والا ہے.

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق جیو پولیٹکس کے ماہر جیمز ڈورسی نے قطر کے ردعمل کو ”فائٹ بیک“ سے تعبیر کیا انہوں نے اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان فریقوں میں سے ایک کے لیے بھی غیر معمولی رد عمل تھا جسے ثالث پر تنقید کے لیے ممکنہ طور پر وہ ثالثی درکار ہے اپریل کے آغاز میںواشنگٹن میں قطری سفارت خانے نے ایک بیان جاری کیا تھاجس میں ڈیموکریٹک قانون ساز سٹینی ہوئر کے ان مطالبوں پرکہ امریکہ قطر کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے تنقید کی گئی تھی نومبر میں واشنگٹن میں قطر کے سفیر نے ریپبلکن سینیٹر ٹیڈبڈ کے ساتھ معاملہ اٹھایا جنہوں نے پوچھا تھا کہ دوحہ کب تک حماس کی میزبانی جاری رکھے گا انہوں نے حماس کوایسے دہشت گرد قرار دیا جن کے ہاتھ امریکی خون سے رنگے ہیں اس کے بعد قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الا انصاری کا بیان سامنے آیا تھاکہ حماس کی سیاسی قیادت دوحہ میں اس وقت تک رہے گی جب تک کہ ان کی موجودگی ثالثی کے لیے فائدہ مند رہے گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ حماس کے باقی رہنے کے بارے میں حتمی فیصلہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک قطر اپنے کردار کا از سر نو جائزہ مکمل نہیں کر لیتا.

کوئلیم نے کہا کہ حماس کے قطر سے جانے کے امکان کا سوال اٹھانے کا مقصد ایک اسٹریٹیجک موقف کی تشکیل تھا انہوں نے کہاکہ قطر نے ثالثی سے دستبردار ہونے کی بات اچھی طرح یہ جانتے ہوئے کہی تھی کہ امریکہ ایسا نہیں چاہے گا یا وہ ایسا ہونے نہیں دے گا جنوری میں قطر نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مذاکرات کو اس وقت نقصان پہنچایا تھا جب ان کی لیک ہونے والی وہ ریکارڈنگز منظر عام پر آئیں جن میں وہ دوحہ کو حماس کے ساتھ اس کے تعلقات کی وجہ سے ایک قابل اعتراض ثالث قرار دے رہے تھے اس کے بعد نیتن یاہو نے امریکی یہودی راہنماﺅں سے اپنے خطاب میں یہ دعو ی کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حماس مالی طور پر خلیجی ریاست پر انحصار کرتا ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ قطر کو حماس پر اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے لیے دباﺅ ڈالنے کی ضرورت ہے.

جس کے جواب میں قطری ترجمان نے ” ایکس“ پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ قطر بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتا ہے ‘ قطرحماس کی بجائے غزہ کے لوگوں کو جو امداد دیتا ہے وہ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ دی جاتی ہے اورنیتن یاہو ذاتی طور پر جانتے ہیں. اس ہفتے، وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ قطر نے اپنے کردار کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ، سیاسی نکتہ چینی سے مایوسی کی وجہ سے کیا ہے جس میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت میں شامل شخصیات کی جانب سے تنقید شامل ہے قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے نومبر کی ایک ہفتے پر محیط جنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں دوحہ کی ثالثی سے درجنوں اسرائیلی اور غیر ملکی یرغمالوں کو رہا کیا کیا گیا تھا کہا کہ وہ سب جانتے ہیں کہ قطر کا کردار کیا ہے اس کی نوعیت کیا ہے اور پچھلے مرحلے کے دوران اس کی تفصیلات بھی لیکن انہوں نے جھوٹ بولا.

جیو پولیٹکس کے ماہر جیمز ڈورسی نے کہا کہ قطر کا ردعمل خاص طور پر ان ناقدین کے لیے تھا جن کا تعلق امریکہ سے ہے جس کے ساتھ درحقیقت قطر کے بنیادی مفادات وابستہ ہیں کیونکہ دوحہ کے واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات اسے ایک اہم سیکیورٹی فراہم کرتے ہیں خلیجی ریاست خطے کے سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتی ہے اور اسے واشنگٹن نے ایک بڑے غیر نیٹو اتحادی کے طور پر نامزد کیا ہے واضح رہے کہ امریکی فورسزکی مشترکہ کمانڈ کا مڈل ایسٹ“ایشیاءاور افریقہ سمیت دیگر علاقوں کے معاملات کی نگرانی کے لیے قائم ”سینٹ کوم“کا مقامی ہیڈکواٹرقطر میں ہے اور قطر نے ہی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ثالثی کے لیے طالبان کا سیاسی دفتر دوحہ میں قائم کروایا تھاجس کے بعد دوحہ میں ہی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا اور امریکی افواج کا افغانستان سے پرامن انخلاءممکن ہوا تھا.