اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی کی رپورٹ

بدھ 27 مارچ 2024 14:16

اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 مارچ2024ء) مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال بارے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے کہا کہ اس بات پر یقین کرنے کی معقول وجوہات موجود ہیں کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ وہ جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے خطاب کر رہی تھیں، جس میں انہوں نے رکن ممالک کے ساتھ انٹرایکٹو ڈائیلاگ کے دوران ’’نسل کشی کی تحقیقات‘‘ کے عنوان سے اپنی تازہ ترین رپورٹ پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں تقریباً6 ماہ سے جاری ہیں،یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں انسانیت کو درپیش بدترین صورتحال بارے رپورٹ پیش کروں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ یقین کرنے کی معقول وجوہات ہیں کہ کمیشن کے معیار کے مطابق فلسطینیوں کی نسل کشی جرم کی حد تک پہنچ گئی ہے ۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے فرانسسکا البانی نے وضاحت کی کہ نسل کشی کی تعریف ایک مخصوص مجموعے کے طور پر کی جاتی ہے جو کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کی جاتی ہے۔

خاص طور پر، اسرائیل نے جان بوجھ کر مطلوبہ ارادے کے ساتھ نسل کشی کی تین کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے، جس سے گروپ کے اراکین کو شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچا ہے۔ مزید برآں غزہ میں نسل کشی مقامی فلسطینیوں کو مٹانے کے ایک دیرینہ آباد کار نوآبادیاتی عمل کا انتہائی انتہا پسند مرحلہ ہے۔76 سال سے زیادہ عرصے سے اس عمل کے تحت فلسطینیوں کو ہر طرح سے جبر کا نشانہ بنایا گیا ہےان کے ناقابل تنسیخ حق حق خودارادیت کو آبادیاتی، اقتصادی، علاقائی، ثقافتی اور سیاسی طور پر کچل دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مغرب کی نوآبادتی دور کی بھولنے کی بیماری نے اسرائیل کے نوآبادیاتی آبادکاری کے منصوبے کو بھی معافی دے دی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ دنیا اب اسرائیل کو دیئے جانے والے استثنا کے تلخ نتائج کو دیکھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہےجس کی پیشن گوئی کر دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت سے انکار اور اسرائیل کو دیئے گئے استثنا اور اس کا تسلسل کا نتیجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیر کومنظور کی گئی قرارداد بھی قابل عمل نہیں رہی جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔

انہوں نے رکن ممالک سے درخواست کی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کریں جو اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی اور پابندیاں عائد کرنے سے شروع ہوتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ مستقبل میں اس کو نہ دہرایا جائے۔انسان حقوق کونسل میں موجود اسرائیل کے مندوبین نے رپورٹ پر تبادلہ خیال میں حصہ نہیں لیا لیکن اسرائیل کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں فرانسسکا البانی کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا ہے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے مستقل مبصر کے سفیر ابراہیم خریشی نے کہا کہ یہ رپورٹ فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کا تاریخی منظر نامہ فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اپنی وحشیانہ جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اور نسل کشی کے جرم کو روکنے کے لیے عارضی اقدامات کرنے کے لیے جنوری میں جاری کیے گئے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کو ماننے سے بھی انکار کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ماننے سے بھی انکار کر دیا ہے، جس میں پیر کو منظور کی گئی قرارداد بھی شامل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ خصوصی نمائندے کی رپورٹ میں دی گئی تمام سفارشات کو لاگو کیا جانا چاہیے اور ہتھیاروں کی برآمد کو روکنے، اسرائیل کا تجارتی اور سیاسی طور پر بائیکاٹ کرنے اور احتساب کے طریقہ کار کو نافذ کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جانے چاہییں ۔