مسلمانان برصغیر کی اصلاح و بیداری کیلئے سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک دوررس اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی

بدھ 27 مارچ 2024 21:48

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مارچ2024ء) سرسید احمد خان مسلمانان برصغیر کے جداگانہ تشخص اور دوقومی نظریے کے زبردست داعی تھے۔ مسلمانان برصغیر کی اصلاح و بیداری کیلئے سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک دوررس اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ انگریزوں اور ہندوئوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انہوں نے مسلمانوں کو جدید علوم وفنون کی طرف راغب کیا۔

ان خیالات کااظہار پروفیسرلطیف نظامی نے تحریک آزادی کے رہنما اور تعلیمی تحریک علی گڑھ کے بانی سرسید احمد خان کی برسی کے موقع پر نئی نسل کو ان کی حیات و خدمات سے آگاہ کرنے کیلئے منعقدہ خصوصی لیکچر کے دوران کیا۔ اس لیکچر کا اہتمام ادارہٴ نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔پروفیسر لطیف نظامی نے کہا کہ سرسید احمد خان انگریزوں کے دورِ غلامی میں مسلمانوں کی زبوں حالی سے بہت پریشان تھے۔

(جاری ہے)

انگریزوں اور ہندوئوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا۔سرسید احمد خان نے علمی تحریک کے ذریعے تحریک پاکستان کے کارکنوں کی تعلیم یافتہ کھیپ تیار کی جنہوں نے اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔سر سید احمد خان کی خواہش تھی کہ مسلمان اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے جدید علوم حاصل کریں۔

انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خان17اپریل 1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ اپنے زمانے کے بہت بڑے کتب بین تھے۔ ذاتی مطالعے سے دینیات‘ قانون‘ فقہ‘ تاریخ‘ فلکیات‘ ریاضی اور طب کے مبادیات سیکھ لئے۔منصفی کا امتحان دے کر 1841ء میں مین پوری کے مقام پر منصف مقرر ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر بادشاہ کی جانب سے جوادالدولہ عارف جنگ کا خطاب ملا۔1864ء میں علی گڑھ میں دوران ملازمت سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی جہاں جدید سائنسی علوم پر تقریریں کروائیں اور انگریزی سے تاریخ و سیاسیات کی بعض کتابیں اردو میں ترجمہ کرائی گئی تھیں۔

1869ء میں آپ انگلستان گئے ۔1870ء میں وطن واپس آکر پوری تندہی سے اصلاح قوم اور جدید سائنسی علوم کی ایک اقامتی اسلامی درس گاہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کی طرز پر بنانے کی تیاریاں کیں۔ رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا جس میں ایسی درسگاہ اور جدید سائنسی علوم کی ترویج کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا۔ مجوزہ درس گاہ کیلئے علی گڑھ کا انتخاب کرکے سرمایہ فراہم کرنے لگے۔ 24مئی 1875ء کو نئے مدرسةالعلوم کا افتتاح کیا۔ 27مارچ 1898ء کو وفات پائی اور علی گڑھ کالج کی مسجد کے گوشے میں دفن کئے گئے۔