بچوں میں غذائی اجزاء کی الرجی پر قابو پانے کے لیے ہدایات

DW ڈی ڈبلیو اتوار 14 اپریل 2024 20:20

بچوں میں غذائی اجزاء کی الرجی پر قابو پانے کے لیے ہدایات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2024ء) کھانے پینے کی اشیاء سے الرجی کسی بھی بچے کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہو سکتی۔ ایسے بچے ہر تقریب اور اسکول میں کھانے کے وقت انتہائی محتاط رہتے ہیں کیونکہ انہیں اشیائے خور و نوش اپنے لیے ایک ممکنہ خطرہ محسوس ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ بچوں اور ان کے والدین کو شدید اعصابی تناؤ کا شکار تو رکھتا ہی ہے، تاہم اس مسئلے کے کسی بھی خاندان کے سماجی رویے پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اس لیے کہ فوڈ الرجی کا شکار بچوں کے والدین کو ہر تقریب یا پارٹی وغیرہ میں جانے سے پہلے منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ طویل المدتی بنیادوں پر یہ مسئلہ ایسے کسی بھی خاندان کی سماجی تقریبات میں حصہ لینے کی منصوبہ بندی کی صلاحیت پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

طبی ماہرین اور محققین نے سب سے پہلے ایسے اصول وضع کیے ہیں، جن سے والدین کو اپنے بچوں میں الرجی کے خلاف جسمانی برداشت بڑھانے میں مدد ملے گی۔

اورل امیونو تھراپی

اس تھراپی میں بچوں کو مونگ پھلی جیسے الرجی پیدا کرنے والے مادوں کی پہلے بہت کم مقدار دینا اور پھر ان کی جسمانی برداشت کو بڑھانے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ مقدار کو بتدریج زیادہ کرتے جانا شامل ہے۔ اب تک معالجین کے پاس کسی بھی بچے کی اس اوورل امیونو تھراپی کی افادیت سے متعلق بہت کم ثبوت موجود تھے۔ یہ نئے رہنما خطوط طبی ماہرین کی مدد کے لیے بنائے گئے ہیں تاکہ وہ مریضوں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کے ساتھ کام کرنے کے طریقے کو معیاری بنائیں اور بچوں میں فوڈ الرجی پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔

کینیڈا میں میک ماسٹر یونیورسٹی کے ماہر امراض اطفال اور اس تازہ اسٹڈی کے مرکزی مصنف ڈگلس میک نے اس بارے میں کہا، ''یہ ہمارے شعبے میں ایک تاریخی مطالعہ کیا گیا ہے، کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی اس عمل کو کبھی معیاری بنایا گیا تھا۔‘‘

فوڈ الرجی کتنی عام ہے؟

دنیا بھر میں تقریباً چار فیصد بچوں اور ایک فیصد بالغوں میں فوڈ الرجی کی تشخیص ہو چکی ہے۔

لیکن مغربی ممالک میں اس الرجی کا پھیلاؤ زیادہ ہے، جہاں آٹھ فیصد چھوٹے بچوں اور چار فیصد بالغوں کو اشیائے خوراک سے الرجی کا مسئلہ درپیش ہے۔

ایک بچے کا من پسند کھانا دوسرے کے لیے زہر ثابت ہو سکتا ہے۔ مونگ پھلی کی الرجی برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں عام ہے لیکن ایشیا میں یہ شکایت عام نہیں، جہاں سب سے زیادہ الرجی گندم، انڈے اور دودھ سے ہوتی ہے۔

پچھلی دو دہائیوں سے بین الاقوامی سطح پر فوڈ الرجی کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سائنسدانوں کے خیال میں حفظان صحت کی اصولوں پر زیادہ توجہ اور عمل درآمد ہے۔ ماہرین کی سوچ یہ ہے کہ ارد گرد کے ماحول میں جراثیم کم ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے جسمانی مدافعتی نظام بھی مونگ پھلی یا دودھ جیسی بے ضرر چیزوں کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ دیگر عوامل میں وٹامن ڈی کی کمی بھی شامل ہے اور بچوں کی وہ عمر بھی جب انہوں نے پہلی بار فوڈ الرجی کا باعث بننے والا اجزائے خوراک کا استعمال کیا۔

اورل امیونو تھراپی کی اُن بچوں کی مدد کرنے کی ایک طویل اور کامیاب تاریخ ہے جن کو پہلے سے ہی کھانے کی الرجی ہے۔ اسے پہلی بار 1908ء میں ایک 13 سالہ لڑکے کو انڈے کی الرجی سے غیر حساس بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ابتدائی خوراک میں بچے کو ہر روز ایک انڈے کا دس ہزارواں حصہ کھلایا جائے۔ چھ ماہ کے بعد وہ محفوظ طریقے سے انڈے کھا سکے گا۔

اورل امیونو تھراپی کھانے کی الرجی پر کیسے قابو پاتی ہے؟

امیونو تھراپی کے پروگراموں میں طبی دیکھ بھال کرنے والوں کو شوقیہ طبی پیشہ ور افراد کی طرح کام کرنے اور الرجی کے موجب مادوں کی خطرناک سطح پر نظر رکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بچوں میں پیٹ میں درد یا قے کر دینا مضر نوعیت کے عام اثرات ہیں۔

کینیڈا کے ایک چلڈرن ہسپتال سے منسلک کلینیکل امیونالوجسٹ جولیا اپٹن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کسی بھی خاندان کے ارکان کے لیے فوڈ الرجی، اس کی وجہ بننے والی اشیاء اور امیونو تھراپی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

اس امر کا دھیان رکھا جانا چاہیے کہ خوراک کو محفوظ طریقے سے کیسے استعمال کیا جائے، کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے، کب علاج کروانا ہے اور کب کسی طبی ٹیم سے رابطہ کرنا ہے۔‘‘

فوڈ الرجی کے خلاف برداشت پیدا کرنا میراتھن ریس جیسا

والدین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر بچوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی الرجی سے محفوظ بنانے کی کوشش کریں اور اگر یہ الرجی پہلے سے معلوم ہو، تو اس پر مؤثر طریقے سے قابو پانے کی کوشش کی جائے۔

جولیا اپٹن میراتھن ریس کے لیے ٹریننگ جیسی تھراپی کو اورل امیونو تھراپی کے لیے بھی ضروری سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر الرجی کے خلاف تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اورل امیونو تھراپی مکمل طور پر روک دی جائے، تو متاثرہ فرد کی جسمانی مدافعت ختم بھی ہو سکتی ہے۔

ک م / م م (فریڈیرک شوالر)

https://www.dw.com/a-68748735