پاک افغان تجارت بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہونگی: صدر لاہور چیمبر کاشف انور

ہفتہ 20 اپریل 2024 21:54

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 اپریل2024ء) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخی سماجی و معاشی تعلقات کے باوجود تجارتی حجم پوٹینشل کی عکاسی نہیں کرتا۔باہمی تجارت کو بڑھانے کے لیے مشترکہ اور ٹھوس اقدامات اٹھانا ہونگے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار افغان تجارتی وفد کے سربراہ، بورڈ ممبر افغانستان چیمبر اور پاکستان افغانستان جائنٹ چیمبر کے معاون صدر خان جان الوک اوزئی سے لاہور چیمبر میںملاقات کے موقع پر کیا۔

وفد کے دیگر اراکین میں اجمل صافی، ببرک اکبر، غریب اللہ، نقیب اللہ سیفی، محمد سلیم افغان، محمد طاہرصافی، عیسی خان اور قیس صافی شامل تھے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ افغان تجارتی وفد کا دورہ اہم ہے۔

(جاری ہے)

ہمسایہ ممالک سے تجارتی تعلقات مضبوط بنانا چاہئیں کیونکہ ہمسایوں کا حق پہلا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی وفود کا تبادلہ بڑھانا ضروری ہے۔

ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنے سے بھی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ فروغ پارہا ہے۔کاشف انور نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کا باہمی تجارتی حجم 522ملین ڈالر ہے جس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان بینکنگ چینلز قائم ہوجائیں تو تجارتی حجم کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین فارماسیوٹیکل سے لیکر کارپٹس ، چاول، آٹوپارٹس اور دیگر شعبوں سے میں تجارت بڑھانے کا پوٹینشل موجود ہے۔ حال ہی میں وزارت تجارت نے بارٹر سسٹم کا ایس آر او جاری کیا ہے جس سے باہمی تجارت کو فروغ ملے گا۔ افغان وفد کے سربراہ خان جان الوک اوزئی نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کے خواہشمندہیں۔

اس وقت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے میں معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے پوٹینشل موجود ہے۔ دونوں ممالک میں بہت سے سیکٹرز میں تجارت ہورہی ہے جس میں سے 70فیصد لاہور کے ذریعے ہورہی ہے جہاں سے فارماسیوٹیکل، چاول، آٹوپارٹس اور دیگر اشیاء افغانستان ایکسپورٹ کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا کراچی سے تعلق ٹرانزٹ ٹریڈ کا ہے جو افغان ایکسپورٹ کے لیے اہم ہے۔

پاکستان افغانستان کے ذریعے سنٹرل ایشیا کو ایکسپورٹ کررہا ہے اور اس میں بھی زیادہ حصہ پنجاب اور لاہور کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان کے ذریعے پاکستان سے پانچ لاکھ میٹرک ٹن فریش فروٹ سنٹرل ایشیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت خطے میں استحکام کی ضرورت ہے۔ اگر دونوں ممالک ایک دوسرے سے منسلک ہوجائیں تو جنوبی ایشیا اور سنٹرل ایشیا بھی آپس میں جڑ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان پاکستان کی ایکسپورٹس کو روس تک لے جاسکتا ہے جبکہ سنٹرل ایشیا سے خام میٹریل پاکستان پہنچا سکتا ہے۔ حالیہ سیاسی تبدیلیوں اور افغانستان میں امن آنے کے بعد معاشی استحکام آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اپنے پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دے رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سیاسی عدم استحکام سے باہمی تجارت پر اثر پڑتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حصے کی مارکیٹ ایران میں منتقل ہوچکی ہے اور افغانستان اور ایران کی باہمی تجارت تین ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ وفد نے پاکستانی سرمایہ کاروں پر زور دیا کہ افغانستان میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ پاکستانی افغانستان میں مالکانہ حقوق کے ساتھ مائننگ اور دیگر شعبوں میں کام کرسکتے ہیں جبکہ دوسرے ممالک کے سرمایہ کاروں کے لیے لازمی ہے کہ وہ ایک افغان شہری کو اپنے ساتھ شامل کریں۔ دونوں ممالک کے مابین مصالحت کا بھی لائحہ عمل ہونا چاہیے جس پر صدر لاہور چیمبر کا کہنا تھا کہ لاہور چیمبر نے بھی ایک مصالحتی سنٹر قائم رکھا ہے جو کاروباری تنازعات نمٹانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔