اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کا معاملہ،سپریم کورٹ ازخودکیس کی سماعت30اپریل مقرر

کیس کی سماعت دن ساڑھے 11 بجے ہو گی،عدالت نے 9 درخواستیں بھی سماعت کیلئے مقرر کر دیں

Faisal Alvi فیصل علوی جمعہ 26 اپریل 2024 15:06

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کا معاملہ،سپریم کورٹ ازخودکیس کی سماعت30اپریل ..
اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔26 اپریل2024 ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت 30اپریل مقرر کر دی،ججز خط از خود نوٹس کیس کی سماعت 30 اپریل کو دن ساڑھے 11 بجے ہو گی۔عدالت نے 9 درخواستیں بھی سماعت کیلئے مقرر کر دیں،سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل کی فریق بننے سمیت لاہور ہائی کورٹ بار، اعتزاز احسن اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی درخواستیں بھی مقرر کر دیں جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست بھی سماعت کیلئے مقرر کر دی گئی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اس ضمن میں اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر رکھا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط کے معاملے پر عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف سپریم کورٹ میں سوموٹو پر سماعت کیلئے نیا بینچ تشکیل دیا گیاتھا۔

(جاری ہے)

بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں۔

نئے بینچ میں گزشتہ سماعت کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی شامل نہیں ہوں گے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے تحریری نوٹ میں خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی کے علاوہ گزشتہ بینچ کے تمام ارکان نئے بینچ کا بھی حصہ ہوں گے۔یاد رہے کہ 11 اپریل کو سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کی تھی جس کے تحریری حکم نامے میں معاملے پر ردعمل کیلئے تجاویز طلب کی گئی تھیں۔

معاملے پر اعلیٰ عدلیہ کا بطور ادارہ ردعمل کیا ہونا چاہیے اس پر سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کی گئیں تھیں۔عدالتی حکم نامے میں تجاویز کے سلسلے میں کہا گیا تھاکہ کس طریقہ کار کے تحت مستقبل میں ایسے معاملات سے بچا جا سکتا ہے، ذمہ داروں کا تعین اور ان کے خلاف کاروائی کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے اس حوالے سے تجاویز دی جائیں۔عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، ہائی کورٹس کے رجسٹرار اور وفاقی حکومت کیلئے اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کئے جائیں کیونکہ قانون کی آئینی تشریح کے حوالے سے معاملات سوالات زیر غور ہیں۔