کاشتکار و زرعی کارکنان خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے آگاہی فورم کا انعقاد

جمعہ 26 اپریل 2024 23:11

سکھر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 اپریل2024ء) ناری فائونڈیشن سندھ، آواز فائونڈیشن پاکستان، سندھ ہیومن رائٹس کمیشن حکومت سندھ کے مشترکہ تعاون سے سکھر پریس کلب آڈٹیوریم ہال میں کاشتکار و زرعی کارکنان خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے آگاہی فورم کا انعقاد کیا گیا ، خواتین کے حقوق سے متعلق پروگرام میں ڈائریکٹر زراعت رسول بخش جونیجو، ڈسٹرکٹ بار سکھر کے جنرل سیکرٹری ایڈووکیٹ سندر خان چاچڑ، پارٹنرشپ آفیسر آئی آر سی فتح جدون، پراجیکٹ آفیسر ایس پی او ولید احمد سومرو، صفیہ بلوچ، عذرا جمال، ناری فائونڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرانور مہر ، پروگرام مینیجر شازیہ عباسی سمیت پروگرام میں خواتین کی بڑی تعداد، وومن ایگریکلچر ورکرس کونسل کی ممبران، وکلاء ، صحافیوں اور مختلف شعبوں سے وابستہ شہریوں نے شرکت کی ، خطابات کے دوران مذکورہ مہمان گرامی و مقررین کا کہنا تھا کہ اس کائنات کی سب سے مضبوط مخلوق عورت ہے ہمیں معاشرے کے نظریات کو بدلنا ہوگاخواتین کو مردوں کے معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے تیار کیاجانا چاہئے، اس طرح کے آگاہی پروگرام دیہی علاقوں میں منعقد کرنے چاہئے اس ملک کی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک خواتین کو مساوی حقوق نہیں ملیں گے، شاہ عنایت کی کسان تحریک میں خواتین کا بہت بڑا کردار تھا۔

(جاری ہے)

ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں آرہی ہیں۔سندھ میں سیلاب کے بعد زراعت کے حوالے سے خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوششیں بہت اچھی ہیں، سندھ اور پنجاب میں زمین پر کام کرنے والی خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنے سمیت مختلف شعبوں کی تربیت دی جائے کیونکہ 2019 کے اس قانون کے مطابق زمین کے مالکان خواتین کو حصہ دینے کے پابند ہیں اور زمین کم ہو رہی ہے۔

دیہات میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے ،افسوس کی بات ہے کہ حکومت 3600 روپے میں گندم خریدنے کو تیار نہیں اس وقت ہمیں قانونی جنگ لڑنی ہے کہ زمین میں کام کرنے والی عورت کو رجسٹرڈ کرکے ورکر قرار دیا جائے اور اسے تنخواہ دی جائے۔اس نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے۔ سخت محنت سے اس قانون کے حوالے سے ہر ممکن مدد کی جائے گی۔اس قانون کا فائدہ اٹھانے کیلئے آیا ہے اور زراعت اور لیبر کے شعبوں کو اس قانون کے تحت تمام خواتین کو رجسٹر کرنے کا پابند ہونا چاہیے۔ووٹ مانگنے والے امیدواروں کو چاہیے کہ وہ زرعی خواتین کے حقوق کا احترام کریں۔فورم میں مطالبہ کیا گیا زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 50% زرعی خواتین کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔