فی ایکڑ پیداواری اخراجات میں کمی کے لئے کاشتکار کپاس کی مشینی کاشت کو فروغ دیں،ماہرین جامعہ زرعیہ

پیر 29 اپریل 2024 13:19

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 اپریل2024ء) کپاس کے زر عی سائنسدانوں کی تیار کردہ زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل بی ٹی اقسام کی کاشت سے گزشتہ سال پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ کے قریب اور پنجاب میں ایک کروڑ دس لاکھ گانٹھوں کے قریب حصول نے نیا ریکارڈ قائم کیا نیز کپاس کو ملکی اہم فصلوں میں اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہ ملکی ٹیکسٹائل کی صنعت کے فروغ اور غیر ملکی زرمبادلہ کمانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے لہٰذا کاشتکار کپاس کی بروقت کاشت کاعمل یقینی بنائیں تاکہ منظورشدہ اقسام کی کاشت سے شاندار پیداوار کاحصول یقینی ہو سکے۔

جامعہ زرعیہ فیصل ۱ٓباد کے زرعی ماہرین نے بتایاکہ پاکستان کی آمدنی کا 22فیصد حصہ زراعت پر منحصر ہے جس کے باعث زراعت اب ایک صنعت کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ فی ایکڑ پیداواری اخراجات میں کمی کیلئے کاشتکار کپاس کی مشینی کاشت کو فروغ دیں کیونکہ ملک میں اس وقت ترقی پسند کاشتکار کپاس کی فصل ما سوائے چنائی کے باقی تمام مراحل مشینی کاشت سے کررہے ہیں۔

انہوں نے کاشتکاروں کو سفارش کی کہ وہ زمین کی تیاری کے وقت لیزر لینڈ لیولر استعمال کریں اورڈرل کی بجائے چوڑی پٹڑیوں پر کپاس کاشت کریں تاکہ سفارش کردہ 25ہزار فی ایکڑ پودوں کا حصول یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ پٹڑیوں پرکاشت سے پانی کی 30فیصد سے زیادہ بچت ہوتی ہے اور کھادوں، جڑی بوٹیوں کی تلفی اور نقصان رساں کیڑوں کے تدارک کیلئے زرعی ادویات کے استعمال میں بھی آسانی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کپاس کی بوائی کے وقت بیج کو کیڑے مار اور پھپھوند کش زہر وں سے آلود ہ کرلیں تاکہ فصل ابتدائی مرحلہ میں نقصان رساں کیڑوں اور بیماریوں کے حملہ سے محفوظ ہوسکے۔انہوں نے کہاکہ کاشتکار اپنے اضلاع کی مٹی اور پانی کے تجزیہ کی لیبارٹریوں سے زمینوں کے تجزیہ کی روشنی میں متوازن اور متناسب کھادوں کے استعمال سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش کھادوں کے ساتھ زنک اور بوران کی کمی کی صورت میں ان اجزائے صغیرہ کا استعمال بھی کیا جائے تاکہ پودوں کی بڑھوتری اور پھل لگنے کے عمل میں اضافہ ہوسکے۔انہوں نے کہاکہ کاشتکار گندم کے خالی کردہ کھیتوں میں ناڑ کوآگ لگانے کی بجائے زمین میں روٹا ویٹ کریں تاکہ ہماری زمینوں میں نامیاتی مادہ کی مقدار میں اضافہ اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی لائی جاسکے۔