جنگ نے غزہ کی معیشت کو دو دہائیاں پیچھے دھکیل دیا، یو این ادارے

UN یو این جمعرات 2 مئی 2024 23:15

جنگ نے غزہ کی معیشت کو دو دہائیاں پیچھے دھکیل دیا، یو این ادارے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 مئی 2024ء) غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی بے رحمانہ بمباری نے فلسطین کی مجموعی سماجی و معاشی ترقی کو دو دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ جنگ فلسطینیوں کے مستقبل پر بدترین اثرات مرتب کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) اور معاشی و سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا (ای ایس سی ڈبلیو اے) کے ایک مشترکہ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں غربت کی شرح بڑھ کر 58.4 فیصد ہو گئی ہے اور اس طرح تقریباً 10 لاکھ 74 ہزار لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔

Tweet URL

اس کے ساتھ علاقے کی مجموعی آمدنی یا جی ڈی پی میں 26.9 فیصد کمی آئی ہے جس سے 2023 کے مقابلے میں معیشت کو 7.1 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔

(جاری ہے)

'یو این ڈی پی' کے منتظم ایکم سٹینر نے کہا ہے کہ اس جنگ سے غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر سنگین نوعیت کے مختصر اور طویل مدتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اس قدر قلیل مدت میں غیرمعمولی انسانی نقصان، سرمایے کی تباہی اور غربت میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں ترقی کا سنگین بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس سے آنے والی نسلوں کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

طویل جنگ، طویل مدتی نقصان

جنگ کا دورانیہ مزید طویل ہونے کی صورت میں فلسطینی علاقوں کے ممکنہ حالات کی انتہائی سنگین تصویر سامنے آتی ہے۔ اگر یہ جنگ نو ماہ تک جاری رہتی ہے تو غربت میں 60.7 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے اور 10 لاکھ 86 ہزار افراد کی زندگی خط غربت سے نیچے چلی جائے گی۔ اسی طرح جی ڈی پی میں 29 فیصد یا 7.6 ارب ڈالر کے مساوی کمی واقع ہو گی۔

رپورٹ میں انسانی ترقی کے اشاریے (ایچ ڈی آئی) میں بھی تیزی سے کمی آنے کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا حالات میں فلسطینی ریاست کا 'ایچ ڈی آئی' 0.647 پوائنٹ تک گر سکتا ہے۔ اس طرح یہ علاقہ ترقی کے اعتبار سے 20 سال پیچھے چلا جائے گا۔

چوالیس سال پیچھے

رپورٹ میں غزہ کے حوالے سے لگائے گئے تخمینے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ اگر یہ جنگ نو ماہ تک جاری رہتی ہے تو 'ایچ ڈی آئی' 0.551 تک پہنچ کر علاقے کو 44 سال پیچھے دھکیل دے گا۔

'ای ایس سی ڈبلیو اے' کی ایگزیکٹو سیکرٹری رولا دشتی نے غزہ میں تباہی کی غیرمعمولی وسعت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں ممکنہ طور پر اس علاقے کو پوری طرح بیرونی امداد پر انحصار کرنا پڑ سکتا ہے۔

گزشتہ جنگوں سے برعکس غزہ میں ہونے والی حالیہ تباہی کا حجم اور وسعت غیرمعمولی ہے۔ اس میں رہائشی عمارتوں، روزگار، قدرتی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور ادارہ جاتی صلاحیتوں کا بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔

اس نقصان کے اثرات آنے والی دہائیوں میں بھی دکھائی دیتے رہیں گے۔

بیرونی امداد پر انحصار

رولا دشتی کا کہنا ہے کہ اس تخمینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں غزہ کو جس حد تک بیرونی امداد پر انحصار کرنا پڑے گا اس کی 1948 کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی۔ علاقے میں فعال معیشت، پیداواری ذرائع، خود انحصاری، روزگار اور تجارتی صلاحیت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

اس جائزے کے نتائج عالمی بینک اور اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ میں ہونے والے نقصان کے مشترکہ عبوری جائزے سے مماثل ہیں۔ دونوں اداروں نے بتایا ہے کہ جنوری 2024 تک غزہ میں بنیادی ڈھانچے کو 28.5 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے جو 2022 میں فلسطینی ریاست کے مجموعی جی ڈی پی کے 97 فیصد کے مساوی ہے۔