پاکستان میں تقریباً10ملین افراد دمے کی بیماری کا شکار ہیں جس میں 12فیصد اسکول جانے والے بچے شامل ہیں،سیمینار میں خطاب

"دمہ کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے، اور علاج کے طریقہ کار کو مریض کی انفرادی ضروریات اور نوعیت کے مطابق بنا کر، ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں،ڈاکٹراحمرین

جمعہ 3 مئی 2024 22:15

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 مئی2024ء) جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی نے ہوا کے معیار میں خرابی اور ماحولیاتی عوامل کی بدولت پاکستان میں دمہ کے بڑھتے ہوئے کیسز کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیی"دمہ پریزنٹیشن اور مینجمنٹ" پر کنٹینیونگ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ(سی ایم ای)نے ایک معلوماتی سیمینار کا اہتمام کیا۔امریکی اسکالر اور سندھ میڈیکل کالج کی سابق طالب علم پھیپڑوں اور سانس کی نالی کی ماہر، ڈاکٹر احمرین خان نے خاص طور پر دمہ کے مریضوں کے لیے علاج کے منصوبوں کو تیار کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا، "دمہ کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے، اور علاج کے طریقہ کار کو مریض کی انفرادی ضروریات اور نوعیت کے مطابق بنا کر، ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر احمرین نے مزید کہاکہ"دمے کی تشخیص کرتے وقت، مریض کی طبی تاریخ پر غور کرنا، پھیپھڑوں کے باقاعدہ ٹیسٹ، بار بار کھانسی، گھرگھراہٹ اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

" ڈاکٹر خان نے علاج کے اہداف طے کرنے، ایمرجنسی رومکے دورے یا ہسپتال میں داخلے کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں کو روکنے، پھیپھڑوں کے فعل کو محفوظ رکھنے، اور کم سے کم منفی اثرات کے ساتھ فارماکو تھراپی کو بہتر بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر امجد سراج میمن نے کہا، "دمہ کی بیماری کوئی روکاوٹ نہیں ہے، بلکہ گہرے سانس لینے اور صحت مند زندگی گزارنے کی یاد دہانی ہے۔

علاج اور انتظام میں پیشرفت کے ساتھ، ہم افراد کو اپنی حالت پر قابو پانے اور ان کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے انکو بااختیار بنا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر راحت ناز، ڈائریکٹر سی ایم ای اور ڈائریکٹر ایچ -آر نے سامعین کو سیمینار کی ضرورت اور مطابقت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تقریبا 10 ملین افراد دمہ کے مریض ہیں جن میں تقریبا 11.6فیصد اسکول کے بچے دمہ سے متاثر ہیں۔

ہم صرف ایک بیماری پر بات نہیں کر رہے ہیں، ہم اپنے بچوں سمیت لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو آرام سے سانس لینے اور دمہ کی گرفت سے آزاد زندگی گزارنے کے مستحق ہیں۔ آئیے مل کر کام کریں۔ ایک ایسا مستقبل بنانے کے لیے جہاں ہر فرد دمہ کی رکاوٹوں کے بغیر ترقی کی منازل طے کر سکے۔ جے ایس ایم یو کی پرو وائس چانسلر پروفیسر سعدیہ اکرم نے ڈاکٹر احمرین خان کو تعریفی ٹوکن پیش کیا۔ سیمینار کا اختتام سوال و جواب کے سیشن کے ساتھ ہوا، جہاں شرکا کو دمہ کے انتظام اور علاج کی حکمت عملیوں کے بارے میں قیمتی مشورے اور وضاحت حاصل کرنے کا موقع ملا۔