سری لنکا سے جبراً لاپتہ افراد بارے معلومات کی فراہمی کا مطالبہ

یو این جمعہ 17 مئی 2024 20:45

سری لنکا سے جبراً لاپتہ افراد بارے معلومات کی فراہمی کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 مئی 2024ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے سری لنکا کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جبراً لاپتہ کیے گئے ہزاروں لوگوں کے بارے میں معلومات سامنے لائے اور ان کی گمشدگی کے ذمہ داروں کا محاسبہ یقینی بنائے۔

سری لنکا میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر ادارے کی رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً لاپتہ کیے جانے میں سکیورٹی فورسز اور ان سے ملحقہ نیم فوجی گروہوں کے کردار کا اعتراف کرے اور عوامی سطح پر معافی مانگے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ سری لنکا میں جبراً لاپتہ کیے گئے لوگوں کو بھلایا نہیں جانا چاہیے۔

(جاری ہے)

اہلخانہ اور عزیز طویل عرصہ سے ان کی راہ تک رہے ہیں اور وہ سچائی جاننے کا حق رکھتے ہیں۔

حکومتی غیرذمہ داری

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ1970 اور 2009 کے درمیان سری لنکا کی سکیورٹی فورسز اور ان سے منسلک نیم فوجی گروہوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو لاپتہ کیا۔ لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم بھی ایسے واقعات میں ملوث رہی۔

جبری گمشدگی کے خلاف تحفظ کے عالمی کنونشن کی توثیق، لاپتہ افراد کے بارے میں اور ان کے لواحقین کو ازالے کی فراہمی کے دفاتر کے قیام جیسے اقدامات کے باوجود لوگوں کی بازیابی یا ان کے بارے میں معلومات کی فراہمی کے لیے ہونے والی پیش رفت بہت محدود ہے۔

ہائی کمشنر کا کہنا ہےکہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ ریاست کا واضح فرض ہے کہ وہ جبراً لاپتہ کیے گئے لوگوں کو بازیاب کرائے اور ان کے بارے میں تمام معلومات سامنے لائے۔ تاہم سری لنکا میں لاپتہ افراد کے خاندانوں کو تاحال اپنے عزیزوں کے بارے میں سرکاری سطح پر کوئی خبر نہیں دی گئی۔

حکومت نے اس معاملے پر یکے بعد دیگرے کئی تحقیقاتی کمیشن قائم کیے لیکن چند ہی نے اپنی رپورٹ عام کی لیکن اس تک بھی لوگوں کو عام رسائی نہیں دی گئی۔

بالخصوص ذمہ داروں کے محاسبے سے متعلق دی گئی ان کی سفارشات پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ایسے واقعات کے مبینہ ذمہ داروں بشمول موجودہ اور سابقہ اعلیٰ حکام اور سفارت کاروں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکی۔

خواتین کے مصائب

لوگوں سے انفرادی اور اجتماعی طور پر کی جانے والی بات چیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ متاثرین کے اہلخانہ بالخصوص خواتین نے کس قدر نفسیاتی، سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا کیا ہے۔

چونکہ لاپتہ کیے جانے والے بیشتر لوگ مرد تھے اس لیے ان کے گھرانوں کا بوجھ خواتین کےکندھوں پر آ پڑا جنہیں کام کے دوران جنسی ہراسانی اور استحصال سمیت کئی طرح کے مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپنے گمشدہ عزیزوں کو ڈھونڈںے کی کوشش کرنے والی بہت سی خواتین کو ہراسانی، دھمکیوں، نگرانی، ناجائز قید، مارپیٹ اور فوج و پولیس کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

بعض خواتین نے بتایا کہ انہیں ایسی دھمکیاں دی گئیں کہ اگر انہوں نے اپنی تلاش جاری رکھی تو ان کے شوہر اور بچوں کو قتل کر دیا جائے گا۔

ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں مسلح تنازع کو ختم ہوئے 15 سال گزر چکے ہیں اور جبری گمشدگیوں کی پہلی لہر کے بعد کئی دہائیوں کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن حکام تاحال ان جرائم کے ذمہ داروں کا محاسبہ نہیں کر سکے۔ اس مقصد میں کامیابی کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو انصاف مل سکے۔