غزہ میں جاری جارحیت پر اسرائیلی حکومت کے اندر اختلافات کھل کر سامنے آگئے

اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں سخت حملے جاری رکھے جبکہ جنوب میں رفح کے ارد گرد جمع ہونے والے اسرائیلی ٹینکوں کو جنگجوﺅں نے نشانہ بنایا ہے‘ فوجیں ان علاقوں میں وہ مہینوں پہلے لڑ رہی تھیں. نیتن یاہو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 17 مئی 2024 22:37

غزہ میں جاری جارحیت پر اسرائیلی حکومت کے اندر اختلافات کھل کر سامنے ..
غزہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17مئی۔2024 ) غزہ میں جاری جارحیت پر اسرائیلی حکومت کے اندر اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیںجب وزیر دفاع نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے واضح حکمت عملی سامنے لانے کا مطالبہ کیا جبکہ فوجیں ان علاقوں میں حماس کے جنگجوﺅں کے خلاف لڑنے کے لیے واپس آ گئیں جہاں وہ مہینوں پہلے لڑ رہی تھیں. برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق وزیر دفاع گالینٹ کا وہ بیان جس میں جنہوں نے کہا کہ وہ غزہ میں فوجی حکومت قائم کرنے پر راضی نہیں ہوں گے نتن یاہو کی طرف سے اس بارے میں کوئی ہدایت نہ ملنے پر سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی عکاسی کرتا ہے کہ لڑائی ختم ہونے کے بعد غزہ کو کون چلائے گا.

(جاری ہے)

وہ کابینہ میں موجود سینٹرسٹ 2 سابق فوجی جرنیلوں، بینی گینٹز اور گاڈی آئزن کوٹ جنہوں نے وزیر دفاع کے مطالبے کی حمایت کی اور سخت دائیں بازو کی قوم پرست مذہبی جماعتیں جن کی قیادت وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ اور داخلی سلامتی کے وزیر اتمار بین گیویر کر رہیں جنہوں نے ان کے بیان کی مذمت کی، کے درمیان شدید تقسیم کو بھی سامنے لائے. دائیں بازو کے جریدے’ ’اسرائیل ٹوڈے“ نے نیتن یاہو اور وزیر دفاع گیلنٹ لی مختلف سمتوں میں آمنے سامنے کھڑے ہوئے لی گئی ایک تصویر کے ساتھ یہ ہیڈلائن لگائی کہ یہ جنگ جاری رکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے حماس کو ختم کرنے اور اسلامی تحریک کے زیر حراست تقریباً 130 یرغمالیوں کی واپسی کے علاوہ نیتن یاہو نے جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی واضح اسٹریٹجک ہدف بیان نہیں کیا مغربی کنارے کے آباد کاروں کی تحریک کے حامی وزرا بین گویر اور اسموٹریچ کی حمایت سے انہوں نے جنگ کے بعد غزہ کو چلانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی کسی بھی قسم کی شمولیت کو مسترد کر دیا، فلسطینی اتھارٹی 3 دہائیاں قبل اوسلو عبوری امن معاہدے کے تحت قائم کی گئی تھی جسے عام طور پر بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ جائز فلسطینی گورننگ باڈی تسلیم جاتا ہے.

یتن یاہو اب تک حماس پر مکمل فتح کے اپنے عہد پر قائم ہیں انہوں نے ”سی این بی سی“ کو بتایا کہ اس کے بعد غزہ کو غیر حماس سویلین انتظامیہ کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے جس میں مجموعی طور پر فوجی ذمہ داری اسرائیل کی ہو اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے فلسطینی قبائلی راہنماﺅں یا دیگر کو بھرتی کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایسے کسی رہنما کی شناخت ہوئی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی دوست عرب ملک مدد کے لیے آگے بڑھا ہے.

چٹھم ہاﺅس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریق پروگرام کے ساتھ ایسوسی ایٹ فیلو یوسی میکلبرگ نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے پاس آپشن یہ ہیں کہ یا تو وہ جنگ ختم کرے، اور فوج واپس بلالے، یا وہ وہاں اپنے تمام مقاصد اور ارادوں کی تکمیل کے لیے فوجی حکومت قائم کر ے اور اس مقصد کے لیے وہ پورے علاقے پر کنٹرول کر ے لیکن کب تک کیونکہ جیسے ہی ہو علاقہ چھوڑ یں گے تو حماس دوبارہ ابھر کر سامنے آجائے گی.

ادھراسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں سخت حملے جاری رکھے جبکہ جنوب میں رفح کے ارد گرد جمع ہونے والے اسرائیلی ٹینکوں کو جنگجوﺅں نے نشانہ بنایا ہے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ غزہ کے آٹھ تاریخی پناہ گزین کیمپوں میں سے سب سے بڑے جبالیہ کے وسط میں واقع بازار تک اسرائیلی فوج موجود تھی اور بلڈوزر پیش قدمی کے راستے میں آنے والے گھروں اور دکانوں کو مسمار کر رہے تھے.

مغربی جبالیہ کے رہائشی ایمن رجب نے کہا کہ اسرائیل کی توجہ اب جبالیہ پر مرکوز ہے ٹینک اور طیارے رہائشی علاقوں، بازاروں، دکانوں، ریستورانوں اور ہر چیز کا صفایا کر رہے ہیں یہ سب دنیا کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے چار بچوں کے والد رجب نے چیٹ ایپ کے ذریعے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ دنیا کو شرم آنی چاہیے امریکی ہمیں کچھ کھانا دینے جا رہے ہیں ہم کوئی کھانا نہیں چاہتے ہم چاہتے ہیں کہ یہ جنگ ختم ہو اور پھر ہم اپنی زندگی کو خود سنبھال سکتے ہیں.

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی افواج نے غزہ پر حملوں میں کئی ماہ قبل جبالیہ کو صاف کر دیا تھا لیکن گذشتہ ہفتے اسرائیلی حکومت نے کہا تھا کہ وہ حماس کو وہاں دوبارہ قدم جمانے سے روکنے کے لیے واپس آ رہا ہے. غزہ کی پٹی کے جنوبی کنارے پر واقع رفح پر حملے کے نتیجے میں لاکھوں افراد بیک وقت علاقے کے دونوں حصے سے چلے گئے دی ہیگ میں عالمی عدالت میں اسرائیل نے ججوں سے کہا ہے کہ وہ جنوبی افریقہ کی جانب سے رفح پر حملے روکنے اور پورے غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کی واپسی کے ہنگامی حکم نامے کے مطالبے کو مسترد کر دیں غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک کم از کم 35 ہزار 303 فلسطینی شہریوں کی جان جا چکی ہے جبکہ امدادی تنظیموں نے بار بار بڑے پیمانے پر بھوک اور بیماری کے خطرے کے بارے میں متنبہ کیا ہے.

ڈاکٹروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انہیں ایسی سرجری کرنی پڑ رہی ہے جس میں اعضا کاٹنا بھی شامل ہیں اس کام کے لیے سن کرنے والی یا درد کے لیے کوئی دوا دستیاب نہیں ہوتی کیوں کہ علاقے میں طبی نظام عملی طور پر تباہ ہو چکا ہے رفح پر اسرائیل کا آپریشن، جو مئی کے اوائل میں شروع ہوا، لیکن ابھی تک مکمل حملے تک نہیں پہنچا، اتحادی ملک امریکہ کے ساتھ کئی دہائیوں کی سب سے بڑی دراڑوں میں سے ایک کا سبب بنا واشنگٹن نے شہری اموات کے خدشے کے پیش نظر اسرائیل کو ہتھیاروں کی کھیپ روک دی .