غزہ میں امداد کی ترسیل کا زمینی راستے سے بہتر کوئی متبادل نہیں

یو این ہفتہ 18 مئی 2024 02:00

غزہ میں امداد کی ترسیل کا زمینی راستے سے بہتر کوئی متبادل نہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 مئی 2024ء) امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ سمندری راہداری کے ذریعے بھیجی جانے والی انسانی امداد غزہ کے ساحل پر پہنچ گئی ہے لیکن یہ مدد ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں اور سمندری راستہ زمینی گزرگاہوں کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

'اوچا' کا کہنا ہے کہ زمینی راستے ہی غزہ بھر میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو خوراک سمیت دیگر ضروری امداد پہنچانے کا تیزرفتار اور موثر ترین ذریعہ ہیں۔

Tweet URL

ادارے کے ترجمان جینزلائرکے نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں ہر راستے سے بھیجی جانے والی کوئی بھی مدد قابل قبول ہے۔

(جاری ہے)

تاہم یہ ایک اضافی مدد ہو گی اور زمینی سرحدی گزرگاہیں ہی بڑے پیمانے پر امداد کی ترسیل کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔

اضافی امدادی راستہ

امریکی فوج کی مرکزی کمان نے بتایا ہے کہ جمعے کو مقامی وقت کے مطابق صبح 9 بجے ٹرکوں نے امدادی سامان ساحل کی جانب لے جانا شروع کر دیا تھا جبکہ امریکہ کا کوئی فوجی غزہ میں نہیں اترا۔امداد اتارنے کے لیے تیرتی گودی ایک روز قبل غزہ کے ساحل پر لائی گئی تھی۔

اس وقت غزہ میں داخلے کے بیشتر سرحدی راستے غیرمحفوظ ہیں۔ ان حالات میں یہ گودی جنگ زدہ علاقے میں اضافی امداد پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہو گی۔

اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ اقوام متحدہ غزہ میں امداد پہنچانے کی ہر کوشش کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ادارہ امریکہ، قبرص اور دیگر رکن ممالک کا مشکور ہے جنہوں نے سمندری راہداری کی صورت میں غزہ کے لیے امداد پہنچانے کا اضافی راستہ مہیا کیا۔

انہوں نے بتایا کہ تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ کئی ماہ کی مشاورت کے بعد اقوام متحدہ تیرتی گودی سے امداد اتار کر غزہ میں پہنچانے کے کام میں مدد دینے کے لیے تیار ہے۔

سرحدی راستے کھولنے کا مطالبہ

جینز لائرکے نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ادارے اپنے عملے کا تحفظ مدنظر رکھتے ہوئے تیرتی گودی سے امداد اتارنے اور اسے ضرورت مند لوگوں تک پہنچانے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔

اس کارروائی کا تحفظ اور سلامتی یقینی بنانے کے لیے مقامی سطح پر آگاہی اور قبولیت لازمی ہے۔ تاہم غزہ بھر میں ضرورت مند لوگوں تک امداد پہنچانے کا انحصار محض اس تیرتی گودی پر نہیں ہونا چاہیے جو ضرورت مند علاقوں سے بہت دور ہے۔ اس کے بجائے زمینی راستے ہی انسانی امداد کی فراہمی کا سب سے زیادہ قابل عمل اور موثر طریقہ ہیں۔ اسی لیے غزہ کی جانب تمام سرحدی گزرگاہوں کو کھلا ہونا چاہیے۔

© UNRWA

رفح سے نقل مکانی جاری

'اوچا' نے رفح کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اسرائیل کا حملہ شروع ہونے کے بعد علاقے سے اب تک تقریباً 640,000 لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔

ان میں بہت سے لوگوں نے وسطی غزہ کے گنجان علاقے دیرالبلح کا رخ کیا ہے جہاں رہائش اور پناہ کے حالات مخدوش ہیں۔

دیرالبلح اور خان یونس میں بڑی تعداد میں بے گھر لوگوں کی آمد کے باعث امدادی اقدامات پر شدید دباؤ ہے جو پہلے ہی بہت محدود رہ گئے ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ لوگوں کو خوراک پہنچانے والی ٹیموں نے بتایا ہے کہ پورے غزہ میں صرف پانچ تنور کام کر رہے ہیں جن میں چار غزہ شہر اور ایک دیرالبلح میں واقع ہے۔

درجن بھر تنور ایندھن اور ضروری سامان نہ ہونے کے باعث بند ہو گئے ہیں۔ ان حالات میں امدادی ادارے چھوٹے پیمانے پر اور محدود مقدار میں امداد مہیا کرنے پر مجبور ہیں۔

ایندھن کی قلت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایندھن کی غیرموجودگی کو اس وقت غزہ کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ ادارے کے ترجمان طارق جاساروک نے بتایا ہے کہ غزہ کے 36 میں سے 13 ہسپتال ہی کسی حد تک کام کر رہے ہیں جنہیں فعال رکھنے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ طبی شراکت داروں کو ہسپتال چالو رکھنے کے لیے ماہانہ 15 تا 18 لاکھ لٹر تیل درکار ہے لیکن رفح کی سرحد بند ہونے تک غزہ بھر میں صرف 159,000 لٹر تیل ہی آ سکا تھا جو کہ ناکافی ہے۔

UN News/Ziad Taleb

پانی اور نکاسی آب کا بحران

رفح سے خان یونس کی جانب نقل مکانی نے علاقے میں پانی اور نکاسی آب کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔

گندا پانی راستوں پر بہہ رہا ہے اور جا بجا ٹھوس فضلہ بکھرا ہے جس سے لوگوں کی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

'اوچا' نے کہا ہے کہ امدادی کارکن لوگوں کو پناہ مہیا کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن غزہ میں اس مقصد کے لیے درکار سازوسامان تقریباً ختم چکا ہے۔