ادارے 32 کلومیٹر کے شہر میں کام نہیں کرسکتے تو پھر ان کی ضرورت نہیں، جسٹس محسن اختر کیانی

ایجنسیاں ملک چلائیں گی یا ملک قانون کے مطابق چلے گا؟ یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں، اس کیس میں ایک مثال قائم ہونی ہے۔ شاعر احمد فرہاد لاپتا کیس میں ریمارکس

Sajid Ali ساجد علی پیر 20 مئی 2024 15:53

ادارے 32 کلومیٹر کے شہر میں کام نہیں کرسکتے تو پھر ان کی ضرورت نہیں، ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 مئی 2024ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا ہے کہ ادارے اگر 32 کلومیٹر کے شہر میں کام نہیں کرسکتے تو پھر ان کی ضرورت نہیں، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ پھر وزیر اعظم اور کابینہ کو بلاؤں گا، ان کو کہوں گا بتائیں ایجنسیاں ملک چلائیں گی یا ملک قانون کے مطابق چلے گا، احمد فرہاد لاپتا کیس کو مثال بننا ہے۔

تفصیلات کے مطابق لاپتا شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی، جہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کل صبح تک وقت مل جائے تو رپورٹ جمع کرا دیں گے‘، جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ’وزارت دفاع کا نمائندہ کہاں ہے؟‘، جس پر وزارت دفاع کی نمائندہ بریگیڈئیر فلک ناز عدالت کے سامنے پیش ہوئیں اور بتایا کہ ’آئی ایس آئی نے کہا ہے احمد فرہاد ان کے پاس نہیں ہے، آئی ایس آئی پر الزام تھا جس پر ہم نے ان سے پتا کیا ہے لیکن وہ انکار کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں بندہ اُن کے پاس نہیں ہے‘۔

(جاری ہے)

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ’اب معاملہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اختیار سے باہر نکل گیا ہے، یہ اُن کی ناکامی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں کوئی کام ہی نہیں کر سکتے، میں سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو کل طلب کر رہا ہوں، سیکرٹری دفاع کل پیش ہو رپورٹ دیں، سیکرٹری داخلہ کو بھی کہیں کہ وہ بھی ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، ان کے تھانوں کے رجسٹر بھرے ہوئے ہیں آج تک کتنے بندے ریکور ہوئے؟ دونوں سیکرٹریز پہلے پیش ہوں گے، اس کے بعد وزیراعظم کو طلب کروں گا، بعد میں وفاقی کابینہ کے ارکان بھی عدالت آئیں گے‘۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا کہنا ہے کہ ’پوری کابینہ کو یہاں بٹھا کر ان سے فیصلہ کرواؤں گا، ان کو کہوں گا بتائیں ایجنسیاں ملک چلائیں گی یا ملک قانون کے مطابق چلے گا، یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں، یہ کیا طریقہ ہے کہ جب دل چاہا دروازہ کھٹکھٹا کر بندہ اٹھا لیا، ہمارے ادارے اگر ادارے 32 کلومیٹر کے شہر میں اپنا کام نہیں کر سکتے تو پھر ان کی ضرورت نہیں، ایک طرف میسج بھیجیں اور پھر کہیں کہ بندہ ہمارے پاس نہیں، کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا ہے مگر ہسٹری بالکل کلیئر ہے کہ ہے کیا‘۔

دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ایس ایس پی پولیس سے استفسار کیا کہ ’کیا آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کا بیان لکھا ہے؟‘، ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے بتایا کہ ’ہم نے ضمنی لکھی ہے‘، اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ ’کل باقاعدہ سیکٹر کمانڈر کا بیان لے کر عدالت میں پیش ہوں پھر میں اسے طلب کروں گا، سیکٹر کمانڈر کوئی چاند پر رہتا ہے بہت بڑی طاقت ہے؟ کیا حیثیت ہے اس کی؟ ایک گریڈ 17 یا 18 کا بندہ ہوگا آپ نے اسے کیا بنا دیا ہے، ابھی اس کیس کو مثال بننا ہے، یہ اغوا برائے تاوان سے زیادہ سنگین جرم ہے، عدالت ان کو ہدایت دے رہی ہے بندہ عدالت کے سامنے پیش کریں ، ان کو بتا دیں پٹشنر کو نہ میسج کرائیے گا‘، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکٹر کمانڈر کے بیان پر مبنی رپورٹ کل طلب کرلی اور لاپتا شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔