شہری آزادیوں اور حقوق کے ضامن جرمن آئین کے 75 برس مکمل

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 23 مئی 2024 15:00

شہری آزادیوں اور حقوق کے ضامن جرمن آئین کے 75 برس مکمل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مئی 2024ء) بنیادی قانون 23 مئی 1949 کو نافذ ہوا، جو کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاسیس کی تاریخ بھی ہے۔ سابق مشرقی جرمنی میں پرامن انقلاب کی 35 ویں سالگرہ بھی آج بروز جمعرات ہی منائی جا رہی ہے۔

سن 1990ء میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد اس قانون کی عارضی حیثیت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی اور یہ پورے ملک میں نافذ ہو گیا کیونکہ یہ قانون مغربی جرمنی میں تقریباً پچاس سال تک مختلف آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہو چکا تھا۔

اس دوران بنیادی قانون اعلیٰ حیثیت حاصل کر چکا تھا اور عوام میں اس کی شناخت اور قبولیت بھی بڑھ چکی تھی۔

سن 2014ء میں کرائے جانے والے ایک جائزے کے مطابق نوے فیصد جرمن عوام نے کہا کہ وہ ''بہت بڑی حد تک‘‘ اس قانون پر اور ملک کی آئینی عدالت پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں جرمنی میں شہری آزادیوں کے محافظ سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

بیرون ملک بھی بنیادی جرمن قانون کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

قانونی امور کے ماہر امریکی پروفیسر پیٹر ای کوئنٹ کہتے ہیں، ''دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جمہوری داستانوں میں سے یہ کامیابی کی سب سے شاندار کہانی ہے۔‘‘ اسی قانون کو نظروں میں رکھتے ہوئے پرتگال، اسپین اور ایسٹونیا کے علاوہ ایشیا اور جنوبی امریکہ کے کچھ ممالک نے بھی اپنے اپنے آئین تیار کیے۔

جرمن آئین کے 75 برس مکمل ہونے پر آج صدر فرانک والٹر شٹائن مائر ایک خصوصی تقریر بھی کریں گے۔

جرمن صدر نے اپنے جاری کردہ ایک پیغام میں لکھا ہے، ''یہ بنیادی قانون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آزادی، جمہوریت اور انصاف ہماری ریاست میں بقائے باہمی کا تعین کرتے ہیں۔‘‘

جرمن آئین میں لفظ ’نسل‘ کے لیے جگہ ہے یا نہیں؟

وفاقی جرمن صدر کے خیال میں گزشتہ 75 برسوں کے دوران یہ آئین مستحکم اور قابل عمل ثابت ہوا ہے اور اس کے ذریعے ہی متعدد بحرانوں اور مسائل پر قابو پانا ممکن ہوا۔

آج جرمن دارالحکومت برلن میں ہونے والی تقریب میں چانسلر اولاف شولس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکومتی شخصیات بھی شرکت کریں گی۔ اس تقریب سے پہلے برلن کے سینٹ میری چرچ میں مذہبی رہنماؤں کے ہمراہ ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔

آج جمعرات کی سرکاری تقریب کے بعد جمعے سے اتوار تک برلن میں ڈیموکریسی فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ عوام بھی اس جشن میں شریک ہو سکیں۔

ہفتے کے روز جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں واقع صدارتی رہائش گاہ کو بھی عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

جرمن آئین کی تشکیل کی کہانی

دوسری عالمی جنگ آٹھ مئی 1945ء کوختم ہوئی تھی۔ اس کے دوسرے روز ہی جرمنوں کو ریڈیو پر یہ خبر سننے کو ملی تھی، ''ہم دستخط کنندہ، جو جرمن ہائی کمان کے نام پر اقدام کر رہے ہیں، اپنی تمام بری، فضائی اور بحری افواج کے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کرتے ہیں۔

‘‘

فاتح اتحادی افواج اس بات کی روک تھام کرنا چاہتی تھیں کہ جرمنی پھر سے دنیا کے لیے خطرہ بنے۔ انہوں نے جرمنی کو چار حصوں میں تقسیم کیا، جن پر چاروں بڑی فاتح طاقتوں کا کنٹرول تھا۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے مغربی زون کا کنٹرول سنبھالا اور مشرقی زون سوویت یونین کے حصے میں آ یا۔

مغربی طاقتوں نے اپنے زون کو مشترکہ طور پر زیر انتظام لانے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے جرمن سیاستدانوں کو ایک جمہوری آئین کی تیاری کا کام سونپا۔

اس آئین میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا کہ سوویت یونین کے زیر قبضہ چوتھے زون کے لیے دروازے کھلے رکھے جائیں۔ اس لیے تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس پر متفق تھیں کہ مجوزہ ریاستی تشکیل عبوری نوعیت کی ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے لیے بون شہر کا انتخاب کیا گیا۔ برطانوی زون میں واقع اس شہر تک، امریکی اور فرانسیسی زون سے بھی با آسانی پہنچا جا سکتا تھا۔

کونراڈ آڈیناؤر کی صدارت میں مغربی جرمنی کے اراکین پارلیمنٹ نے ایک بنیادی قانون تیار کیا، جسے عارضی طور پر آئین کا کام دینا تھا لیکن اسے ایک حتمی آئین نہیں بننا تھا۔ اس میں آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت کے تمام اہم استونوں کو شامل کیا گیا۔

بعض اراکین پارلیمنٹ کو سمجھوتے بھی کرنا پڑے۔ مثال کے طور پر ان کو اس بارے میں پس و پیش کا سامنا تھا کہ عورتوں اور مردوں کو یکساں حقوق دیے جائیں لیکن انہیں اس پر رضامند ہونا پڑا۔ تب صوبائی اسمبلیوں اور مغربی فوجی گورنروں کی منظوری کے بعد 23 مئی 1949ء کے دن اس آئین کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔

ا ا / م م (ڈی پی اے، اے ایف پی)