ججز کو نہیں ان کے فیصلوں کو بولنا چاہئے،خواجہ آصف

حکومت کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ کسی قسم کے کوئی تصادم کی کیفیت نہیں ہے،موجودہ چیف جسٹس کے دور میں کچھ بہتری بھی ہوئی ہے،وزیر دفاع کی گفتگو

Faisal Alvi فیصل علوی ہفتہ 25 مئی 2024 10:31

ججز کو نہیں ان کے فیصلوں کو بولنا چاہئے،خواجہ آصف
اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔25 مئی 2024 ) وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ججز کو نہیں ان کے فیصلوں کو بولنا چاہئے، لوئر اور اعلیٰ عداتیں بتا دیں کہ ہمارا 138 ویں نمبر پر کیوں ہیں ؟ لوئر اور اعلیٰ عداتیں بتا دیں کہ ہمارا 138 ویں نمبر پر کیوں ہیں ؟، عدلیہ کی عالمی سطح پر رینکنگ بہتر ہوتی ہے تو ہم ججز کے ہاتھ چومیں گے، حکومت کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ کسی قسم کے کوئی تصادم کی کیفیت نہیں ہے۔

ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ ماضی میں عدلیہ نے اپنے آپ کو استعمال ہونے کی اجازت دی ،عدلیہ سیاسی انتقام کا آلہ کار بنی یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ عدلیہ کے معاملے پر جو اب صورتحال ہے وہ غیر معمولی ہے۔ چند ماہ سے ٹی وی پر عدلیہ کی پریزنس بہت بڑھ گیا ہے، ٹی وی پر عدلیہ کے ٹکرز کی تعداد بہت زیادہ ہے جو کہ عدلیہ کیلئے خود بھی ٹھیک نہیں، منصف کو اتنا ویزیبل نہیں ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

موجودہ چیف جسٹس کے دور میں کچھ بہتری بھی ہوئی ہے ،یہ اچھی بات ہے کہ وہ اپنے ہاﺅس کو ان آرڈر بھی کر رہے ہیں۔گفتگو کے دوران خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ میں لاپتا افراد کیس میں تعاون کرنے کو تیار ہوں، لاپتا افراد مسئلے کا سیاسی معاملہ بھی ہے لیکن مسنگ پرسن ہونے کے اور بھی بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ بہت سے کیسز ایسے ہیں کہ لوگ خود لاپتا ہوئے ہیں۔

2013 میں مجھے لاپتا افراد کیس میں عدالت بلایا گیا میں بطور وزیر دفاع عدالت میں پیش ہوا تھا، ڈیفنس سیکریٹری نے عذر پیش کیا اور مسنگ پرسن کے کیس میں ڈیفنس سیکریٹری پیش نہیں ہوئے تھے، مسنگ پرسن کی لسٹ میں تقریبا 3 سے 4 ہزار لوگوں کے نام تھے۔ ہم نے کہا تھا کہ یہ لسٹ مستند اور ٹھیک نہیں ہے۔ جس کے بعد فہرست تین ہزار سے ایک ہزار پر آگئی تھی۔

پاکستان کی جانب سے ایران کے حدود میں حملے میں مسنگ پرسن مارے گئے تھے، جب دہشت گرد مارے جاتے ہیں اور شناخت ہوتی ہے تو وہ مسنگ پرسن نکلتا ہے، عدلیہ کو بھی اس معاملے کو دیکھنا چاہیے اور اس کا تعین کیا جائے کہ کتنے افراد مسنگ پرسنز ہیں۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ کا منقطع ہونا یا نہ ہونا ایک بڑا ظلم ہے کیونکہ بات چیت کا عمل منقطع ہونے کے عام آدمی کی زندگی پر گھناو¿نے اثرات ہوں گے۔

پی ٹی آئی اگر سیاسی دھارے کا حصہ بنتی ہے تو معافی کو سنجیدہ لینا چاہیے۔پی ٹی آئی والے پہلے گھر بیٹھ کر اپنے بیانات تو آپس میں ملا لیں پھر بیانات دیں ، جو بھی بانی پی ٹی آئی سے مل کر آتا ہے وہ میڈیا پر اپنی دکان کھول لیتا ہے ،جن کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہوتی وہ اپنی الگ دکان کھول لیتے ہیں۔