چائے پتی پر فکس ایم آر پی یا خوردہ قیمت اور ٹیکس سے دیئے جانے والے تمام استثنیٰ ختم کیا جائے،ایف پی سی سی آئی

منگل 15 اپریل 2025 20:57

چائے پتی پر فکس ایم آر پی  یا خوردہ قیمت اور ٹیکس سے دیئے جانے والے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اپریل2025ء)صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے چائے کی درآمد سے متعلق بے ضابطگیوں کو فوری طور پر حل کرنے اور پالیسی مداخلت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ چائے کو ہر ایک انسان کے لیے بنیادی ضرورت اور فوڈ آئٹم سمجھا جانا چاہیے ؛کیونکہ یہ اصولی طور پر لگژری آئٹم نہیں ہے۔لیکن ،اس وقت ایمپورٹ اسٹیج پر اس کوایک لگژری آئٹم کی طرح دیکھا جاتا ہے۔

صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ چائے کے چھوٹے و درمیانے درجے کے تاجر ٹیکس پالیسیوں اور ضوابط میں مختلف بے ضابطگیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں؛مثلاً، درآمدی مرحلے پر چائے پتی کو غیر منصفانہ طور پرتیار شدہ مصنوعات کے طور پر لیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ حقیقتاً چائے پتی ایک خام مال ہے ؛ کیونکہ،ایمپورٹ کے بعد اس کی پروسیسنگ،بلینڈنگ، پیکنگ اور مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔

لہذا،ایف پی سی سی آئی سمجھتی ہے کہ چائے پتی کی درآمدی قیمت پر کل ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 70 فیصد وصول کرنا ایک ظلم ہے اور چائے پتی پر اتنے ٹیکسز SMEs کے لیے نا قابل بر داشت ہیں۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ پاکستان کے سماجی و اقتصادی ڈھانچے اور مزدور طبقے کی حرکیات کے پیش نظر پاکستان میں زیادہ تر چائے کو سادہ غذا ئوںجیسا کہ روٹی یا پراٹھے کے ساتھ کنسٹرکشن ورکرز، فیکٹری لیبر، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور معاشرے کے نچلے ترین طبقے کے افراد استعمال کرتے ہیں۔

لہٰذا، یہ امر چائے کی قیمتوں کو کم اور مستحکم رکھنے کے لیے کاروباری برادری کے لیے آسان اور سازگار ماحول کا متعقاضی ہے۔نائب صدر ایف پی سی سی آئی اور پاکستان ٹی ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین امان پراچہ نے بتایا کہ حکام نے چائے کے لیے 1,200 روپے فی کلو کی غیر حقیقی اورغیر منصفانہ ایم آر پی (MRP) یا خوردہ قیمت مقرر کی ہے ؛ جبکہ چائے کی قیمتیں دراصل 800 سے 900 روپے فی کلو کے حساب سے شروع ہوتی ہیں۔

نتیجتاً، چائے کے شعبے میں کا م کرنے والی SMEs کو اصل قیمت کے بجا ئے 1,200 روپے فی کلو کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہی؛ جو کہ انتہائی غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدام ہے۔نائب صدر ایف پی سی سی آئی امان پراچہ نے وضاحت کی کہ اگر ایم آر پی (MRP) کو ختم نہیں کیا گیا تو چائے کی قیمتوں میں صارفین کے لیے 300 روپے فی کلو کا اضافہ متوقع ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اچھے معیار اور عوام الناس کے لیے چائے کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے چائے کے تاجروں کو چائے کی قیمتوں کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے ۔

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو غیر تیار شدہ خام مال کے طور پر ایمپورٹ کیے جانے والی چائے پتی کے لیے درآمدی مرحلے یا کسٹم کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت متعین نہیں کرنی چاہیے اور ایم آر پی صرف ٹی بیگز یا حتمی پیک شدہ مصنوعات کے لیے ہی درآمدی مرحلے پر مقرر کی جانی چاہیے۔امان پراچہ نے مزید کہا کہ خام مال کے طور پر منگوائی جانے والی چائے کے لیے درآمدی مرحلے پر MRP کا تعین کرنا کوئی معاشی، تجارتی یا ریگولیٹری معنی نہیں رکھتا۔

متعلقہ عنوان :