ڈکٹیٹر کیوں کہا، کیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کروں، جسٹس سرفراز کا ایمان مزاری سے مکالمہ

جمعرات 11 ستمبر 2025 20:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 ستمبر2025ء)نامور وکیل ایمان زینب مزاری کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو مبینہ طور پر ڈکٹیٹر کہنے پر توہینِ عدالت کی کارروائی سے خبردار کردیا گیا۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ (جو مارچ سے حراست میں ہیں) کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔

نامور وکیل ایمان مزاری ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی وکیل کے طور پر کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔ایک موقع پر چیف جسٹس جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیے کہ اگر میں اس کیس میں کوئی حکم جاری کروں تو مس مزاری نیچے جا کر پروگرام کریں گی کہ ایک ڈکٹیٹر بیٹھا ہے جس پر ایمان مزاری نے کہا کہ انہوں نے ’ایسی کوئی بات نہیں کی جو قانون کی حدود سے باہر ہو۔

(جاری ہے)

جسٹس ڈوگر نے جواب دیاکہ آپ کو بھی اپنی زبان بند رکھنی چاہیے، آپ کو بھی ادب کی حدود میں رہنا چاہیے۔ایمان مزاری نے وضاحت کی جو میں نے کہا وہ ذاتی حیثیت میں کہا تھا، اس کا مؤکل کے کیس پر اثر نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو میرے بارے میں کوئی تعصب ہے تو مؤکل کا کیس متاثر نہ ہونے دیں، میں ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ کیس لے کر آئی ہوں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے تبصرہ کیا کہ میں جج نہیں بلکہ ڈکٹیٹر کے طور پر بیٹھا ہوں، کیا ہمیں آپ کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیی چیف جسٹس کے ریمارکس پر مزاری نے کہا کہ میں نے قانون اور آئین کے دائرے سے باہر کچھ نہیں کہا، اگر آپ توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں، آئین نے مجھے اظہارِ رائے کی آزادی دی ہے اور میں نے وہی استعمال کی ہے۔

بعدازاں چیف جسٹس نے ایمان مزاری کے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہادی صاحب، انہیں سمجھائیں، اگر کبھی میرے ہاتھ آ گئیں تو۔اس پر مزاری نے طنزیہ انداز میں کہاکہ اگر عدالتیں وکلا کو دھمکانے کے مرحلے پر آ گئی ہیں تو پھر توہینِ عدالت کی کارروائی کر لیں۔سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کو سب سے پہلے وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ ماہ رنگ کا نام ای سی ایل سے نکالا جا سکے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکلا کو رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔