Abhi Nahi - Article No. 1970

Abhi Nahi

ابھی نہیں - تحریر نمبر 1970

ہر کام کو جواب دے دیتے ہیں صاحب زادے ابھی نہیں بعد میں

منگل 18 مئی 2021

عشرت جہاں
راحیل نے بازار سے آکر سبزی کا تھیلا باورچی خانے میں رکھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
”ارے بھئی یہ راحیل کہاں ہے؟مجال ہے یہ لڑکا کوئی کام ڈھنگ سے کر لے۔باقی سامان کہاں رکھ دیا۔“
باقی سامان ابو نے لاؤنج میں رکھ دیا تھا۔مہینے کے ابتدائی دنوں میں راحیل باقاعدگی سے ابو کے ساتھ بازار جانے لگا تھا،تاکہ سامان کے ساتھ اپنا پسندیدہ رسالہ بھی خرید سکے۔

”بہت افسوس کی بات ہے تم یہاں رسالہ پڑھ رہے ہو اور ابو․․․․“نوشین آپی کے لہجے میں حسب معمول طنز چھپا تھا:”رکھو اسے ایک طرف اور پھر باقی سامان اُٹھا کر لاؤ۔“انھوں نے حکم دیا۔
”آپ اُٹھا لائیں۔اب میں نہیں اُٹھوں گا۔“اس نے چِڑ کر جواب دیا۔

(جاری ہے)


”اچھا اب تم یوں جواب دو گے۔“آپی رسالہ جھپٹنے کو آگے بڑھیں۔

راحیل اُچھل کر کھڑا ہوا اور رسالہ اُٹھائے باہر نکل آیا۔نوشین آپی دانت پیس کر رہ گئیں۔
راحیل پڑھتے پڑھتے تھک گیا تھا،اس لئے مسہری پر لیٹ کر کل کا پروگرام ذہن میں ترتیب دینے لگا۔
”کتابیں کاپیاں کھلی پڑی ہیں اور جناب آرام فرما رہے ہیں۔“یہ آپی کی آواز تھی۔راحیل کی آنکھیں بند تھیں،لیکن کان کھلے تھے۔
”ہوم ورک بھی مکمل نہیں ہوا۔
“آپی نے حساب کی نوٹ بک اُٹھا کر دیکھی۔
”تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ذرا دیر بعد کر لوں گا۔“وہ اُٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔
”یہ ادھورا کام․․․“انھوں نے کاپی لہرائی۔
”آپی!سر میں درد ہو رہا تھا اس لئے․․․․“
”سر درد کا صرف بہانہ ہے،اُٹھ کر کام مکمل کرو۔“
انھوں نے غصے سے گھورا۔
”کر لیتا ہوں ابھی۔
“راحیل کے لہجے میں بے زاری تھی۔
”میں کہہ رہی ہوں فوراً اُٹھو اور ابھی ختم کرو۔“
”نہیں کروں گا․․․اب نہیں کروں گا۔“وہ جھنجھلا کر بولا۔
”دیکھتی ہوں ،کیسے نہیں کرو گے۔“آپی کان پکڑنے کو آگے بڑھیں۔
”دیکھتا ہوں کیسے کروائیں گی۔“انھی کے انداز میں جواب دیتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکل آیا۔
”راحیل!تمہیں دادی جان بلا رہی ہیں،ان کی بات سن لو۔
“امی نے راحیل کو باہر جانے کے لئے تیاری کرتے دیکھا تو کہا۔
”جی اچھا۔“کہتے ہوئے اس نے جوتے کے تسمے باندھے اور دادی جان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
”السلام علیکم دادی جان!آپ بلا رہی تھیں۔“
”وعلیکم السلام میرا بیٹا تیار ہو کر آیا ہے۔“دادی جان نے پیار کیا۔یہ لو دواؤں کی پرچی اور جلدی سے لے آؤ۔“
”آپ کی دوائیں ختم ہو چکی دادی جان؟“
”نہیں ابھی ختم نہیں ہوئیں،سوچا اس سے پہلے ہی منگوا لوں۔
“دادی جان ہر کام وقت سے پہلے کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔
”دادی جان!ابھی تو مارکیٹ بھی نہیں کھلی ہو گی،دس بج رہے ہیں۔“راحیل کے ہاتھ میں دواؤں کا پرچا تھا۔
”ارے بھئی دیکھنے میں کیا حرج ہے،یوں گئے یوں آئے۔“
”لیکن دادی جان!عالیان باہر کھڑا ہے اور ہم لوگ کل کے میچ کی تیاری کر رہے ہیں۔“
”ایک تو تم لوگوں کے سیر سپاٹے ختم نہیں ہوتے۔
“دادی جان خفگی سے بولیں،جاؤ اور پہلے یہ کام کرو۔“راحیل خاموشی سے باہر نکل آیا۔
”امی!ابھی تو میں عالیان کے ساتھ جا رہا ہوں دادی جان کی دوائیں بعد میں لا دوں گا۔“راحیل نے پرچا امی کے پاس کچن شیلف پر رکھ دیا۔
”پہلے گھر کا کام کرو،پھر دوستوں کے ساتھ مٹر گشت کرنا۔“امی نے جھاڑ پلا دی۔
”ارے بھئی،کیا ہوا صبح صبح چائے کی جگہ ڈانٹ پلائی جا رہی ہے بیٹے کو۔
“ابو جان نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
”ابو جی باہر عالیان میرا انتظار کر رہا ہے اور․․․“ابو جی کی ہمدردی پا کر راحیل بول پڑا۔
”ہر کام کو جواب دے دیتے ہیں صاحب زادے ابھی نہیں بعد میں․․․“امی نے آخر میں اس کے لہجے کی نقل اُتاری۔
”آپ لوگ بھی تو بچے کے ساتھ بچہ بن رہے ہیں۔“ابو بولے:”جاؤ بیٹا!عالیان انتظار کر رہا ہے باقی کام بعد میں۔
“ابو کی اجازت پا کر راحیل خوشی خوشی چلا گیا۔
”ہم بچوں کو زبردستی ذمے دار نہیں بنا سکتے بیگم!اگر اس وقت بچے کا کسی کام کا موڈ نہیں ہے تو اس کے مزاج کو سمجھیں۔پہلے اس کی ایک بات ماں لیں پھر اپنی دس باتیں منوا لیں اور کچھ ہو نہ ہو،زبردستی کی اس کوشش میں ہم انھیں ضدی اور ہٹ دھرم ضرور بنا دیتے ہیں۔“
امی جان خاموشی سے بات سنتے ہوئے بیٹے کے ساتھ اپنے رویے پر غور کرنے لگیں۔

Browse More Moral Stories