Adat Ya Fitrat - Akhri Hissa - Article No. 2382

Adat Ya Fitrat - Akhri Hissa

عادت یا فطرت (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2382

یہی کسان تھا جو اُن مٹی کے ڈھیلوں پر بڑے آرام سے سوتا تھا اور اب یہ شاہی محل میں آیا تو خشخاش کے چند دانوں کی وجہ سے اسے رات بھر نیند نہیں آئی

ہفتہ 29 اکتوبر 2022

فہیم عالم
دراصل بادشاہ سلامت کو تم پر ترس آگیا ہے۔وہ تمہاری محنت و مشقت سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ان کو تمہارا یوں جاں فشانی سے کام کرنا بے حد پسند آیا ہے۔انعام کے طور پر بادشاہ سلامت اب تمہیں شاہی محل میں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔بادشاہ سلامت کی خواہش ہے کہ تم کچھ عرصہ ان کے ساتھ محل میں گزارو۔وہاں عیش و عشرت سے رہو۔
فیروز الدین بولا۔
کسان کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟لہٰذا خوشی سے اُچھلتا ہوا ان کے ساتھ ہو لیا اسے شاہی محل کے شاہی مہمان خانے میں ایک سجا سجایا کمرہ دیا گیا،کمرے میں آرام و آرائش کی ہر چیز موجود تھی،بڑی سی مسہری پر نرم و ملائم ریشمی بستر بچھا ہوا تھا۔گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔ریشم کے پردے لٹک رہے تھے۔

(جاری ہے)

اسے عمدہ اور قیمتی کپڑے پہنائے گئے۔

ہر وقت ایک خادم اس کی خدمت کے لئے موجود رہتا۔جس چیز کی بھی اسے تمنا ہوتی خادم فوراً حاضر کرتا،کھانے کا وقت ہوتا تو قسم قسم کے کھانے اس کے سامنے چن دیئے جاتے،الائچی،بادام اور پستے والا دودھ اسے پیش کیا جاتا۔ہر قسم کے مشروب اس کے کمرے میں رکھے ہوتے۔چند دن اسے درباری آداب کی تعلیم دی گئی۔اور وہ شاہی دربار میں بیٹھنے لگا۔
اب وہ نرم نرم بستر پر سوتا،عمدہ لباس پہنتا،عمدہ اور صحت مند غذائیں کھاتا۔
کچھ ہی عرصے میں اس کا رنگ و روپ نکھر گیا،عادتیں سنور گئیں۔اب وہ اچھا خاصا امیر زادہ دکھائی دینے لگا تھا۔وقت گزرتے کب دیر لگتی ہے۔یوں دو سال کا عرصہ گزر گیا،کسان اپنے ماضی کو بھول کر اس عیش و عشرت والی زندگی کا عادی بن گیا۔
ایک رات وہ بستر پر لیٹا تو اسے بڑی بے چینی محسوس ہوئی۔کوئی چیز اس کے گداز جسم میں چبھ رہی تھی۔وہ ساری رات بے قراری سے کروٹے بدلتا رہا۔
کبھی ہاتھ پھیر کر محسوس کرنے کی کوشش کرتا کہ آخر کیا چیز چبھ رہی ہے؟غرض تمام رات وہ ایک پل کے لئے بھی نہ سو سکا۔صبح اٹھتے ہی وہ خادم پر برس پڑا۔
”تم کتنے کام چور ہو گئے ہو سست آدمی!تم نے ہمارا بستر ٹھیک طرح سے کیوں نہیں جھاڑا۔پتہ نہیں!کیا چیز تمام رات ہمیں چبھتی رہی؟ہم ایک لمحہ بھی نہیں سو سکے۔“خادم سر جھکائے اس کی ڈانٹ سنتا رہا لیکن کسان کے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی۔
وہ فوراً وزیر فیروز الدین کے پاس گیا اور خادم کی غفلت اور سستی کی شکایت کی۔
”ہوں․․․․․واقعی!خادم نے بہت ہی غفلت سے کام لیا۔آؤ!دربار لگنے والا ہے ہم بادشاہ سلامت سے شکایت کرتے ہیں․․․․․“فیروز الدین اپنے ہونٹوں پر آئی پُراسرار مسکراہٹ کو دباتے ہوئے بولا۔وہ دونوں شاہی دربار کی طرف چل دیئے۔بادشاہ سلامت ابھی تک دربار میں تشریف نہیں لائے تھے۔

بادشاہ سلامت جیسے ہی دربار میں تشریف لا کر تخت پر رونق افروز ہوئے تو سب سے پہلا مقدمہ ان کے سامنے یہی پیش کیا گیا کہ فلاں خادم نے شاہی مہمان کے آرام کا خیال نہیں رکھا۔شاہی مہمان رات بھر سو نہیں سکا۔
”شاہی مہمان کے بستر کا جائزہ لیا جائے اور دریافت کیا جائے کہ آخر وہ کیا چیز تھی جو مہمان کو چبھتی رہی اور مہمان کے آرام میں خلل پڑا․․․․․“بادشاہ سلامت نے حکم دیا جائزہ لینے کے لئے فیروز الدین چند سپاہیوں کے ساتھ شاہی مہمان خانے کے اس کمرے میں گیا،جہاں کسان کو ٹھہرایا گیا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد ان کی واپسی ہوئی۔
”حضور!یہ خشخاش کے دانے بستر کی چادر کے نیچے سے ملے ہیں۔“فیروز الدین اپنی ہتھیلی بادشاہ سلامت کے سامنے پھیلاتے ہوئے بولا ہتھیلی پر خشخاش کے چند دانے تھے۔
”کیا صرف خشخاش کے چند دانوں کی وجہ سے تمہیں رات بھر نیند نہیں آئی!“بادشاہ سلامت کہتے کہتے رُک گئے۔ان کی نظر فیروز الدین پر پڑ گئی تھی جس کے ہونٹوں پر پُراسرار مسکراہٹ ناچ رہی تھی،وہ ساری بات سمجھ گئے۔

”فیروز الدین!مجھے تم پر فخر ہے کہ اتنا عقل مند اور دانا آدمی میرے وزیروں میں شامل ہے۔تم نے ٹھیک کہا تھا واقعی ماحول سے انسان کی عادت بنتی ہے۔انسان جیسے ماحول میں رہتا ہے اسی کا عادی بن جاتا ہے۔اس ماحول کے مطابق اس کے لئے رہنا آسان ہو جاتا ہے۔یہی کسان تھا جو اُن مٹی کے ڈھیلوں پر بڑے آرام سے سوتا تھا اور اب یہ شاہی محل میں آیا تو خشخاش کے چند دانوں کی وجہ سے اسے رات بھر نیند نہیں آئی۔
“بادشاہ سلامت ستائشی نظروں سے فیروز الدین کو دیکھتے ہوئے بولے،جبکہ کسان حیران و پریشان ان دونوں کو تک رہا تھا کیونکہ ان کی کوئی بھی بات اس کے پلے نہیں پڑی تھی۔
”کسان!شاہی محل میں آپ کی مہمان داری کے دن ختم ہو گئے ہیں۔اب آپ جا سکتے ہیں۔ہم دراصل تمہارے ذریعے سے ایک تجربہ کرنا چاہتے تھے۔ہم تجربہ کر چکے،جو نتیجہ ہم نے نکالنا تھا ہم نکال چکے۔
لیکن چونکہ ہمارے تجربے نے تمہاری عادتوں کو بگاڑ دیا ہے،اب آپ کے لئے اپنے پہلے والے ماحول کو قبول کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔اس لئے ہم آپ کو وہ گاؤں تحفے میں دیتے ہیں جس میں آپ رہتے تھے۔آج سے آپ اس گاؤں کے جاگیردار ہیں۔آپ واپس جا کر چاہیں تو شاہی محل جیسا ماحول پیدا کریں اور باقی زندگی چین سے بسر کر سکتے ہیں۔“اتنا کہہ کر بادشاہ سلامت نے اسے جاگیر کی سند اور بہت سا انعام دیا۔وہ کسان یہ سب لے کر خوشی خوشی اپنے گاؤں رخصت ہوا۔

Browse More Moral Stories