Ahsaan Faramosh - Article No. 2152

Ahsaan Faramosh

احسان فراموش - تحریر نمبر 2152

جس پر احسان کرو،اُس کے شر سے بچو

جمعرات 30 دسمبر 2021

ساجد کمبوہ․․․․پھول نگر
صدیوں پرانی بات ہے،کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ملک میں امن وامان تھا،ہر طرف خوشحالی تھی،بادشاہ کے دربار میں وزراء امراء ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے،اُن میں ایک وزیر پیش پیش تھا۔وہ دوسروں کے سامنے شیخی بگھارتا،اُن پر رعب و دبدبہ رکھتا مگر جب بادشاہ کے سامنے آتا تو بھیگی بلی بن جاتا۔
دوسرے وزراء امراء کی شکایتیں لگاتا،خود کو بڑا نیک پارسا بنا کر پیش کرتا۔ بادشاہ کے دوسرے درباری اُس سے بہت نالاں تھے۔چونکہ بادشاہ کا منظور نظر تھا،اس لئے سبھی خاموش رہتے تھے۔وزیر اعظم نے دو چار مرتبہ کہا کہ آپ کا وزیر قابل اعتبار نہیں،آپ کو جھک جھک کر سلام کرتا ہے،ایسے بندے پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے،اس کے تعلقات آپ کے دشمنوں سے بھی ہیں،آپ اس پر بھروسہ نہ کریں مگر بادشاہ نے سنی اَن سنی کر دی۔

(جاری ہے)


کچھ عرصہ بعد بادشاہ کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں،وہ وزیر پس پردہ بادشاہ کے مخالفوں کے ساتھ تھا مگر جب بادشاہ کے سامنے آتا،اُن کی برائیاں کرتا،بادشاہ کوئی بات کرتا تو فوراً اُنہیں مخبری بھی کر دیتا تھا۔آخرکار بادشاہ کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔بادشاہ کو قید کر لیا گیا،اب وہ وزیر خود بادشاہ بننے کے چکر میں تھا مگر خوش قسمتی سے بادشاہ کا جانشین ہی تخت نشین ہوا۔

تب اُس بادشاہ کو بڑا افسوس ہوا کہ اس نے وزیر اعظم کی بات کیوں نہ مانی مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
بادشاہ زیر عتاب تھا،اس لئے کوئی بھی اُسے ملنے نہ آتا،وزیر اعظم نے بہت سے فلاحی کام کئے تھے اُس کی بھی ملک میں بڑی عزت تھی وہ کسی نہ کسی طرح معزول بادشاہ سے ملاقات کرنے پہنچ گیا۔
معزول بادشاہ نے وزیر اعظم کو دیکھتے ہی کہا:”کاش میں نے تیری تجویز پر عمل کیا ہوتا،وہ شخص دربان رکھنے کے قابل نہ تھا،میں نے اُس کی خوشامد سے متاثر ہو کر اُسے وزیر بنایا۔

”بادشاہ سلامت آپ نے شیخ سعدی کا یہ شعر ضرور سنا ہو گا جس کا ترجمہ یوں ہے کہ”سعدی شیراز میں رہنے والے بدذات کو سبق نہ دے، اُسے کامل نہ بنا کیونکہ جب وہ کامل ہو جائے گا،وہ اپنے استاد کا ہی دشمن بن جائے گا۔
اگر آپ نے خاندانی آدمی پر احسان کیا ہو گا تو آپ کی عزت کرے گا،کمی آپ کا دشمن ہو جائے گا جیسا کہ وزیر ہوا ہے۔
ہاں اے وزیر میں نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول سنا تھا جس پر احسان کرو،اُس کے شر سے بچو اب پتہ چلا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کتنی سچی بات کہی۔

وزیر اعظم نے کہا:”بادشاہ سلامت!حکایتوں کا تعلق حقیقت کے ساتھ ہو نہ ہو حکمت کے ساتھ ضرور ہوتا ہے۔ایسی ہی ایک حکایت آپ کی نذر کرتا ہوں۔
کسی جنگل میں شیر اور شیرنی کو کھال کے متلاشی شکاریوں نے مار گرایا،اُن کے ننھے منے بچوں کو ہرنوں کے جوڑے نے دودھ پلا کر جوان کیا جب وہ جنگل کے بادشاہ بن گئے تو اُنہوں نے تمام جانوروں کو اکٹھا کیا اور ہرنوں کے جوڑے کو خراج عقیدت پیش کیا۔
ہرن اور ہرنی کو ہاتھیوں پر بیٹھایا گیا،بندر ہاتھیوں کے دائیں بائیں اُچھل اُچھل کر ناچ رہے تھے۔مور محو رقص تھے بھالو میاں کرتب دکھا رہے تھے،کوئلیں کوک رہی تھیں طوطے ٹیں ٹیں کر رہے تھے اور چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔دونوں شیر جلوس کے آگے آگے بھنگڑا ڈال رہے تھے۔آسمان سے عقاب نے یہ عجیب و غریب منظر دیکھا،پھر غوطہ لگا کر نیچے آیا اور ہرنوں کے جوڑے سے پوچھا”یہ ماجرا کیا ہے؟،شیر تو ہرن کا شکار کرتے ہیں جبکہ انہوں نے تمہیں دولہا دلہن بنا رکھا ہے“۔

ہرنوں کے جوڑے نے ہنستے ہوئے تمام کہانی سنائی اور کہا:”تم بھی کسی پر احسان کرکے دیکھو،تمہیں بھی اندازہ ہو جائے گا،اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے“۔
کہانی سُن کر عقاب نے اپنی راہ لی،ندیاں نالے عبور کرتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ ایک چوہا پانی میں غوطے کھا رہا ہے،قریب تھا کہ ڈوب جاتا،عقاب نے جھپٹ کر اُسے اُٹھایا اپنے پروں پر بیٹھایا اور فضا میں بلند ہو گیا۔
تازہ ہوا اور عقاب کے جسم کی حرارت سے چوہے کے حواس بحال ہوئے تو آہستہ آہستہ حسب عادت چوہا عقاب کے پَر کترنے لگا۔عقاب کسی پر احسان کرنے کے نشے میں مست تھا۔اُدھر چوہے نے عقاب کے چھوٹے چھوٹے پَر کترنے کے بعد عقاب کا شہپر بھی کُتر ڈالا اور وہ زمین پر آ گرا۔چوہا تو اِدھر اُدھر بھاگ گیا مگر آسمان کی بلندیوں پر اُڑانیں بھرنے والا عقاب زمین پر رینگنے لگا۔
اُس کے پروں سے خون رسنے لگا۔چونٹیاں اُس پر چڑھ دوڑیں۔ زخموں پر مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔ایک بن مانس کی نظر عقاب پر پڑی تو اُس نے آگے بڑھ کر چیونٹیوں اور مکھیوں کو بھگایا اور عقاب کو گوشت کے چند ٹکڑے کھلائے اور اُس کی اس حالت کا سبب پوچھا۔عقاب نے پوری کہانی سنائی اور کہا:”مجھے ہرنوں کے جوڑے نے مروایا ہے، بن مانس ہنسا اور کہا قصور ہرنوں کا نہیں تمہارا اپنا ہے،اصل بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔
احسان بڑی اچھی چیز ہے لیکن احسان کرتے وقت یہ ضرور دیکھ اور سمجھ لینا چاہئے کہ تم یہ احسان کس پر کر رہے ہو۔ہرنوں نے شیر کے بچوں پر احسان کیا۔اُنہوں نے اُن کی عزت کی اور تم نے اپنا احسان ایک چوہے پر برباد کیا۔حکایت سُن کر بادشاہ نے کہا:”یہ حکایت حقیقت کے قریب ہے، واقعی مجھ سے غلطی ہوئی میں نے بھی ایک بدذات پر احسان کیا تھا۔
کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ بادشاہ بن گیا،اب وہ وزیر ایک جھونپڑے میں بیٹھا پچھتا رہا تھا:”کاش میں نے بادشاہ سے وفا کی ہوتی،شرپسندوں اور ملک دشمن عناصر کا ساتھ نہ دیا ہوتا،آج بھی وزیر ہوتا اور عزت کما رہا ہوتا۔

پیارے بچو!سازشی عناصر وقتی طور پر کامیاب ہو سکتے ہیں مگر سچ کا بول بالا ہے،اگر ہم پر کوئی احسان کرے تو بھلائی سے پیش آنا چاہئے۔

Browse More Moral Stories