Mustaqbil Ka Qaidi - Article No. 1383

Mustaqbil Ka Qaidi

مستقبل کا قیدی - تحریر نمبر 1383

وہ سڑک پر تیزی سے بھاگ رہا تھا۔بھاگتے ہوئے وہ اپنے پیچھے مڑ مڑکر دیکھتا جارہا تھا۔

Badar Laghari بدر لغاری منگل 23 اپریل 2019

عائشہ الیاس
وہ سڑک پر تیزی سے بھاگ رہا تھا۔بھاگتے ہوئے وہ اپنے پیچھے مڑ مڑکر دیکھتا جارہا تھا۔اس کا تعاقب کرنے والے اس سے کافی دور تھے ،لیکن وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایک بار ان کی گرفت میں آگیا تو موت اس کا مقدر بنے گی ۔یہی سوچ اس کے دوڑتے قدموں کو مزید تیزکررہی تھی ۔اس کی سانس پھول رہی تھی ۔وہ کافی تھک چکا تھا ،لیکن زندگی بچانے کی خواہش تمام تکالیف پر حاوی تھی۔

دوڑتے دوڑتے وہ ایک تنگ گلی میں مڑ گیا۔یہاں اس کی بدقسمتی اس کا انتظار کررہی تھی۔یہ بندگلی تھی ۔وہ پیچھے مڑا تو تعاقب کرنے والے گلی میں پہنچ چکے تھے ۔ اسے اپنی موت یقینی نظر آنے لگی ۔اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور دل میں خدا کو یاد کرنے لگا۔
وہ ایک وسیع رقبے پر پھیلی تجربہ گاہ تھی،جس کے ایک کونے میں ایک عجیب وغریب مشین لگی تھی۔

(جاری ہے)

اس مشین میں ایک بندر موجود تھا۔دوسری طرف اس مشین کو چلانے کے لیے ایک مستعدمعاون کھڑا تھا ،
جس کا نام زید تھا۔اس کے ساتھ ہی اس مشین کا موجد سائنس داں بھی موجود تھا،جس کے اشارہ کرتے ہی زید نے ایک بٹن دبایا ۔بٹن کے دبانے کی دیر تھی کہ مشین میں سے بندرغائب ہو گیا۔تقریباً ایک گھنٹے بعد سائنس داں نے پھر ایک بٹن دبایا ،جس کے دبتے ہی بندر دوبارہ مشین میں واپس آگیا۔

سائنس داں کے حکم پر زید نے بندر کو مشین سے نکالا اور ایک دوسری مشین میں لٹا دیا ۔سائنس داں اس مشین کے ذریعے سے بندر کی یادداشت کا جائزہ لینے لگا۔
بندر آج سے کئی ہزار سال پرانے زمانے میں پہنچ چکا تھا۔اس نے اس لمبے عرصے میں بے تحاشا نشیب وفراز دیکھے تھے ۔یہ تمام عرصہ انتہائی خوب صورت سے بھر پور تھا ۔اس میں ہر جانب ہرے بھرے پیڑ پودے اپنی بہار دکھارہے تھے ۔
خوب صورت پھول اور کلیاں ہر سُورونق بڑھا رہی تھیں ۔رنگ برنگے پرندے سر سبز درختوں پر بیٹھے چہچہارہے تھے اور اپنی سُریلی آوازوں میں گانا گارہے تھے ۔بندران درختوں پر اُچھل کو د کر رہا تھا اور بڑے مزے میں تھا،لیکن آخر میں اچانک ہی موسم تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور ہر جانب برف کی چادر پھیلتی چلی گئی۔ساری زمین نے سفید چادر اوڑھ لی ۔ہر ذی روح سردی سے تھر تھر کا نپنے لگا۔
دنیا میں برفانی دور شروع ہو چکا تھا،جو اگلے ایک ہزار سال تک جاری رہنا تھا۔عین اسی لمحے سائنس داں نے بندر کو واپس بلالیا تھا اور بندر اس برفانی دور سے نکل کر واپس اپنے زمانے میں آگیا۔
”بہت خوب!“سائنس داں کے منھ سے نکلا:”اب مجھے اس سفر پر کسی انسان کو بھیجنا چاہیے،تاکہ وہ اپنے سفر کی داستان کے ساتھ ساتھ اپنے محسوسات بھی بیان کر سکے۔
“وہ بڑ بڑایا اور پھر زید کی طرف مڑ کر کہا:”تم کسی ایسے شخص کو تلاش کرو،جو اس سفر پر جا سکے ۔“
زید نے کہا:”جو آپ کا حکم ۔“
زید نے ایسے آدمی کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جو اس سفر پر جا سکے ،مگر اسے کوئی کامیابی نہ ملی۔تھک ہار کروہ سائنس داں کے پاس آیا اور اس کو اپنی ناکامی کی خبر سنائی۔
سائنس داں بولا:”کوئی بات نہیں۔
میری نظر میں ایک آدمی اس کام کے لیے بہترین ہے۔“یہ کہہ کروہ زید کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرایا۔
اس کی بات کی تہ تک پہنچتے ہی زید کے چہرے پر خوف کی لہردوڑ گئی۔اس کا سر انکار میں ہلا اور وہ نہیں ،نہیں کرتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا۔
سائنس داں نے اپنے دوسرے ملازمین سے کہا کہ اسے پکڑیں ۔وہ اسے پکڑ نے لگے تو وہ ان سے اپنا آپ چھڑا کر باہر کی طرف بھاگا اور بھاگتے بھاگتے ایک بند گلی میں ان کے ہتھے چڑھ گیا۔

وہ لوگ اسے پکڑ کر تجربہ گاہ میں لے آئے،جہاں اسے اس ٹائم مشین کے ذریعے سے ماضی کے سفر پر روانہ کر دیا گیا۔اب برفانی دور اس کے سامنے تھا۔یہاں پہنچتے ہی اسے سخت سردی لگنے لگی ۔ہر طرف پھیلی ویرانی اسے خوف زدہ کررہی تھی ۔وہاں کوئی ذی روح موجود نہ تھی ۔بس ہر سُو برف کی چادر ہی پھیلی نظر آرہی تھی ۔اس سرد ماحول کی دہشت اور ہولنا کی نے اسے خوف ذدہ کردیا اور وہ زور زور سے چیخنے لگا،لیکن وہاں اس کی چیخیں سننے والا کوئی نہ تھا۔

برفانی دور کی رات بھی لرز ادینے والی ہولناکی سموئے ہوئے تھی۔وہ ساری رات سردی اور خوف سے لرزتا رہا۔یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔
اسے اس برفانی دور میں پہنچے ہوئے تین دن ہو چکے تھے ۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھاکہ اب وہ کبھی اس سرد جہنم سے نکل نہیں سکے گا۔ہمیشہ یہیں رہ جائے گا۔اس سرد جہنم میں اسے یوں لگ رہا تھا کہ وقت تھم گیا ہے اور اب کبھی نہیں گزر ے گا۔

پانچویں دن اسے یوں لگا کہ کوئی اس کی طرف آرہا ہے ۔وہ ایک انسان تھا۔اپنے جیسے ایک انسان کو اس ویرانے میں دیکھ کر اسے ناقابل بیان خوشی ہوئی۔وہ اجنبی اسے اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا ،جہاں ایک چھوٹا سا خیمہ بنا ہوا تھا۔وہاں جا کر اسے حرارت کا احساس ہوا تو اس کی جان میں جان آئی۔
زید نے اس آدمی کو اپنے بارے میں بس کچھ اسے بتا دیاکہ و ہ کیسے یہاں تک پہنچا۔
جو اباًاس آدمی نے بتایا کہ وہ اس سے تین صدیاں آگے کے زمانے کا ہے اور اس کے زمانے میں ہر کسی کے پاس ٹائم مشین موجود ہوتی ہے ،جس کے ذریعے سے وہ جب چاہیں اورجس زمانے میں چاہیں پہنچ سکتے ہیں۔
اس نے یہ بھی بتایا کہ برفانی دور چوں کہ سب سے زیادہ سخت ترین دورہے ،اس لیے کوئی بھی اس دور میں آنا پسند نہیں کرتا ،لیکن میں چوں کہ مہم جو طبیعت کا مالک ہوں ،اس لیے اس دور میں آیا ہوں۔
میں چند روز بعد یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔ اگر تم پسند کروتو میرے ساتھ میرے زمانے میں چل سکتے ہو۔
زید فوراً راضی ہو گیا ،کیوں کہ اسے اس سرد جہنم سے نکلنا تھا۔وہ اپنے میزبان کی مدد سے اس کے زمانے میں آگیا ،یعنی اس وقت اپنے دور سے تین سوسال آگے مستقبل میں موجود تھا۔وہ زمانہ اس کے لیے نہایت انوکھا تھا۔ہر شے اس کی آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی تھی ۔
وہ حیرت سے ایک ایک چیز کو دیکھ رہا تھا۔
وہ آدمی اسے لے کر ایک جگہ آگیا۔ وہاں اسے مختلف حلیوں کے آدمی نظر آئے۔
اس آدمی نے بتایا کہ یہ تمام وہ لوگ ہیں جن کا تعلق تاریخ کے مختلف ادوار سے ہے اور ہمارے زمانے کے لوگ انھیں لے کر آئے ہیں ۔ان تمام لوگوں کو ایسی جگہوں پرر کھا جاتا ہے ۔اب تم بھی یہاں رہو گے ۔یہ کہہ کر وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا۔

چند دن گزرے تو زید کے لیے یہاں رہنا مشکل ہو گیا۔اسے اپنے گھر والے شدت سے یاد آنے لگے۔وہ اپنے زمانے میں واپس جانے کے لیے تڑپنے لگا ،مگر اب وہ کسی بھی طرح اپنے زمانے میں واپس نہیں جا سکتا تھا ،کیوں کہ جس سائنس داں نے اسے ٹائم مشین کے ذریعے سے برفانی دور میں بھیجاتھا،اس نے جب اسے واپس اپنے دور میں بلانے کے لیے بٹن دبایا تو وہ واپس نہ آیا،کیوں کہ وہ تو مستقبل میں پہنچ چکا تھا اور وہ ٹائم مشین صرف ماضی کے سفر پرلے جاسکتی تھی اور وہاں سے واپس لا سکتی تھی ۔وہ ابھی مستقبل کا سفر اختیار کرنے کے قابل ہو سکی تھی ۔سو اس کے زمانے والوں کو کبھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں گیا اور اس کے ساتھ کیا گزری۔

Browse More Moral Stories