Aik Sawal - Article No. 1122

Aik Sawal

ایک سوال - تحریر نمبر 1122

ملک بھر کے سرکاری ڈاکٹروںنے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کر رکھی تھی ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر اور دیگر شعبوں کے لوگ پلے کارڈ لیے کھڑے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھ۔ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم کے مرکزی صدر ڈاکٹر سروش سے ٹی وی چینل کے نمائندے نے کہا:” آپ کے مطالبات کی حد تک تو بات ٹھیک ہے مگر کیا آپ کو یہ نہیں احساس کہ اس طرح ہزاروں مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انسانی جانوں کا معاملہ ہے ہے ، خدانخوستہ۔۔۔“

بدھ 23 مئی 2018

محمد فاروق دانش:
ملک بھر کے سرکاری ڈاکٹروںنے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کر رکھی تھی ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر اور دیگر شعبوں کے لوگ پلے کارڈ لیے کھڑے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھ۔ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم کے مرکزی صدر ڈاکٹر سروش سے ٹی وی چینل کے نمائندے نے کہا:” آپ کے مطالبات کی حد تک تو بات ٹھیک ہے مگر کیا آپ کو یہ نہیں احساس کہ اس طرح ہزاروں مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انسانی جانوں کا معاملہ ہے ہے ، خدانخوستہ۔

۔۔“” یہ بات ہمیں نہیں سرکار کو سوچنی چاہیے یہ سوال ہم سے کرنے کی بجائے اگر آپ کسی سرکاری نمائندے سے کرتے تو اچھا ہوتا۔“ ڈاکٹر نے اس سوال کا جواب اتنہائی خشک لہجے میں دیا اس طرح کا سوال پوچھنا انھیں اچھا نہیں لگا تھا۔

(جاری ہے)

ہسپتال کا مرکزی دروازہ زنجیر سے باندھ کر تھوڑا سا کھلا رکھا گیا تھا اور آنے والے مریضوں کو گارڈ پیچھے دھکیل رہے تھے۔

ٹی وی چینل کا نمائندہ اس صورتِ حال کی تصویریں اور ویڈیو بنانے کے بعد گاڑی میں سوار ہو کر چلا گیا۔ ہسپتال میںہڑتال کا تیسرا روز تھا ڈاکٹروں نے کسی مریض کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، بلکہ ماتحت عملے کو بھی سختی سے کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر سروش نے آںے والے مریضوں سے کہا:” مطالبات پورے ہونے تک کسی مریض کو نہیں دیکھا جائے گا۔“مریض فریاد کر رہے تھے کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے علاج ہمارا حق ہے ہمارا کوئی قصور ہو تو بتائیں لیکن ان کی التجا سننے کو کوئی بھی تیار نہ تھا۔

سلمان کو ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو بستر پر پایا اس کا داہنا پیر کسی سخٹ چیز سے بندھا ہوا تھا اس نے اُٹھ کر دیکھنے کی کوشش کی تو اس کے منھ سے چیخ نکل گئی ۔ اس کے پیر پر پلاسٹر بندھا ہوا تھا۔ اس نے سوچنا شروع کر دیا اسے یاد آیا کہ وہ بڑی شان سے موٹر سائیکل کو لہرالہرا کر مصروف سڑک پر کرتب دکھا رہا تھا۔ اس دوران پیچھے ایک نو جوان تیزی سے کار بھگاتا ہوا لا رہا تھا اس نے سلمان کی موٹر سائیکل سے آگے نکلنے کی کوشش کی تو موٹر سائیکل سڑک سے اُچھلتی ہوئی نیچے کچے میں گھسٹتی چلی گئی۔
کار روالے نوجوان نے اسے گرتے دیکھا تو کار کی رفتار بڑھا دی اور نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ راہ گیروں نے یہ حادثہ ہوتے ہوئے دیکھا تو اس لیے وہ دوڑ کر گئے تھوڑی ہی دیر میں ہجوم لگ گیا کسی نے اپنے موبائل سے ایمبولنس سروس کو اطلاع کر دی تھی۔ کچھ ہی دی میں ایسے ایمبولنس میںلٹا دیا گیا۔ سر اور بازو کی چوٹ کم تھی لیکن ٹانگ شدید زخمی تھی ایک مہربان شخص ایمبولنس میں اس کے ساتھ سوار ہو گیا وہ کئی سرکاری ہسپتالوں میں گئے لیکن کسی نے بھی توجہ نہ دی۔
اس مہربان شخص نے کچھ سوچ کر ڈرائیور کو ہدایت دی کہ آگے ایک نجی ہسپتال ہے زخمی کووہاں لے چلے۔ اسے علم تھا کہ کچھ پرائیوٹ ہسپتال والے حادثاتی کسی بھی لے لیتے ہیں۔اس نے مطلوبہ فیس بھی جمع کر ادی اور سلمان کو داخل کر دیا۔ دماغی چوٹ نے سلمان پرنیم بے ہوشی طاری کر دی تھی۔ اس کی ٹانگ کے ایکسرے کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی ٹانگ پر پلاسٹر کر دیا تھا۔
اب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنا موبائل تلاش کیا، لیکن شاید ہو کہیں گرگیا تھا۔ سلمان نے اس مہربان شخص کو فون نمبر بتا کر اپنے والد کو اطلاع کرنے کے لیے کہا۔
آج چوتھے روز بھی ڈاکٹروں کے مطالبات پورے نہیں ہو ئے تھے۔ تنظیم کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر نعیم کے موبائل فون پر کوئی کال موصول ہوئی تو وہ ادھر اُدھر ٹہل کر بات سننے لگے۔ جب انہوں نے فون بند کیا تو ڈاکٹر سروش پکار اُٹھے:” یہ کال ضرور متعلقہ محکمے کی طرف سے ہوگی شاید وہ مان گئے ہمارے مطالبات۔
۔۔“ڈاکٹر سروش خور ہو رہے تھے لیکن ڈاکٹر نعیم کا چہرہ لٹک گیا تھا وہ بغیر کچھ کہے سنے تیزی سے اُٹھ کر چلے گے۔ ان کا رُخ اپنی گاڑٰ کی طرف تھا انہوں نے گیٹ کھولنے کے لیے گارڈ کو اشارہ کیا پچھلے تین روز سے وہ گھر بھی نہیں جا سکے تھے۔گاڑی کا رُخ ایک نجی ہسپتال کی طرف تھا وہ دوڑ کر اپنے بیٹے سلمان تک پہنچنا چاہتے تھے ان کی بیگم چار سال پہلے وفات پا چکی تھی اب ان کا اکلوتا بیٹا ہی ان کی اُمیدوں کا مرکز تھا۔
وہ تو ہسپتال اور اپنے پرائیوٹ کلینک میں خاصے مصروف رہتے تھے اس لیے اسے ایک آیا کی نگرانی میں دے رکھا تھا جو اس کے کھانے پینے اور دیگر ضرور یات کا خیال رکھتی تھی دولت کی فراوانی نے سلمان کو خود سر اور ضدی بنا دیا تھا۔ ” کیسے ہو سلمان !“ وہ اس سے لپٹ گے:” میر ے بچے! مجھے تمہارا پتا ہی نہیں چلا سکا۔“ انہیں ندامت محسوس ہو رہی تھی کہ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے کس قدر سنجیدہ ہو گئے تھے کہ انہوں نے اپنے گھر کو بھی ب بھلا دیا تھا۔
”آپ کا بے حد شکریہ!“ انہوں نے اجنبی کا شکریہ ادا کیا اور خرچ شدہ رقم دینے لگے ، لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔”ہم سب سے پہلے آپ ہی کے ہسپتال پہنچے تھے لیکن وہاں سے ہمیں دھکے دے کر نکال دیا گیا۔ دوسرے سرکاری ہسپتالوں نے بھی ہم پر اپنے دورازے بند رکھے آخر ہمیں یہاں آنا پڑا۔“ اجنبی نے پوری تفصیل بتائی:” بروقت طبی امداد نہ ملتی تو سلمان کو ما میںچلا جاتا اور پھر۔
۔۔آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔“
ڈاکٹر نعیم اپنے ماتھے سے پسینا صاف کرنے لگے۔” اس موقع پرمیرا ایک سوال ہے “۔ سلمان نے نہایت معصومیت سے کہا: ” آپ لوگوں کا جھگڑا سرکار سے ہوتا ہے تو اس کی سزا بے چارے غریب مریضوں کو کیوں دی جاتی ہے؟“۔ان کے پاس اپنے بیٹے سلمان کے اس سنجیدہ سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ انہوں نے سرجھکا لیا اور ایک ان جانے خوف سے لرز کر رہ گئے۔ ڈاکٹر نعیم نے وہیں سے ڈاکٹر سروش کو فون کیا جنہوں نے ان کے دلائل سن کر ہڑتال موخر کر دی۔

Browse More Moral Stories