Khauf Ka Bhoot - Article No. 2475

Khauf Ka Bhoot

خوف کا بھوت - تحریر نمبر 2475

لڑکی کا یہ پوچھنا تھا کہ ہارون اتنی تیزی سے بھاگا کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔اس کو کچھ پتا نہ چلا کہ کب گھر پہنچا اور اپنے بستر پر بے سدھ گرا۔وہ ساری رات اس نے جاگ کر گزاری۔

جمعرات 9 مارچ 2023

فضل اور ہارون دو گہرے دوست نہر کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے۔ایک طرف پکی سڑک بنی ہوئی تھی۔ہارون کا گھر فضل کے گھر سے کچھ دور شہر کے قریب تھا۔نہر کی طرف پکی سڑک کے کنارے ایک بہت پرانا ڈاک خانہ تھا۔یہ سڑک بہت خوف ناک کہلاتی تھی۔یہاں لوگوں کو اکثر بھوت نظر آتے تھے۔رات کے دس بجے کے بعد یہاں سے کوئی نہیں گزرتا تھا۔
ایک دن ہارون،فضل کے گھر تھا تو باتوں باتوں میں دیر ہو گئی۔
اس کا گزر اسی سڑک سے ہونا تھا۔ہارون اپنے آپ کو بہت بہادر سمجھتا تھا۔اس لئے اکیلا ہی چل دیا۔سردیوں کی رات تھی۔اس نے سوچا یہ بہت پرانی باتیں ہیں۔یہاں کوئی بھوت وغیرہ نہیں ہو سکتا۔لوگ یونہی ڈراتے رہتے ہیں۔ایسا کچھ نہیں وہ سر کو جھٹک کر آگے بڑھا۔
ہارون سنسان سڑک پر جا رہا تھا۔

(جاری ہے)

آج تو رات کے گیارہ بج گئے۔اس کو بہت سردی محسوس ہوئی۔

سڑک بہت سنسان تھی۔دور سے چوکیدار کی سیٹی کی آواز آ رہی تھی۔وہ اپنی دُھن میں جا رہا تھا۔جب وہ پرانے ڈاک خانے کے قریب پہنچا تو اچانک سامنے ایک لڑکی آتی ہوئی دکھائی دی۔اس نے سبز لباس پہن رکھا تھا اور دو چوٹیاں کیے ہوئی تھی۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی چٹیوں کو پکڑ کر ہارون کو غور سے دیکھے جا رہی تھی۔یہ دیکھ کر ہارون کے حواس گم ہو گئے۔وہ تو ہمیشہ بھوتوں کا مذاق اُڑایا کرتا تھا،لیکن لڑکی کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔

تبھی اس لڑکی نے بہت بھاری آواز سے پوچھا:”کہاں سے آ رہے ہو؟“
لڑکی کا یہ پوچھنا تھا کہ ہارون اتنی تیزی سے بھاگا کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔اس کو کچھ پتا نہ چلا کہ کب گھر پہنچا اور اپنے بستر پر بے سدھ گرا۔وہ ساری رات اس نے جاگ کر گزاری۔صبح اُٹھ نہ سکا۔اس کو بہت تیز بخار نے آ لیا تھا۔
شام کو فضل اس کے پاس آیا تو اس نے سارا واقعہ فضل کو سنا دیا۔

دو ہفتے بعد اس کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو ایک صبح فضل کے ساتھ شہر کی طرف جا رہا تھا۔راستے میں وہی لڑکی نہر کے کنارے ان ہی کپڑوں میں نظر آئی۔وہ ایک ٹھیلے والے سے پھل لے کر کھا رہی تھی۔ہارون نے اس ٹھیلے والے کے پاس جا کر اس سے پوچھا کہ یہ کون ہیں جو ایسے حلیے میں ہے۔
اس نے بتایا:”یہ ایک کسان کی بیٹی ہے۔اس کے باپ کا پچھلے سال انتقال ہو گیا تو اس صدمے سے وہ پاگل ہو گئی۔تبھی سے یہ اس حال میں ہے۔“
یہ سن کر فضل اور ہارون اپنے آپ پر خوب ہنسے۔
آج تک ہارون کو وہ رات ہمیشہ یاد ہے۔اصل بات معلوم ہونے کے بعد بھی وہ ڈاک خانے والی سڑک سے رات کو کبھی نہیں گزرے۔

Browse More Moral Stories