Ajar - Article No. 2332

Ajar

اجر - تحریر نمبر 2332

عدیل صاحب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا،جس نے بلی کو وسیلہ بنا کر انھیں ایک بڑے حادثے سے محفوظ رکھا

جمعرات 18 اگست 2022

جاوید اقبال صدیقی
عدیل صاحب شہر کی بہت اونچی ایک عمارت کے پانچویں منزل پر واقع کسی سرکاری ادارے میں کام کرتے تھے۔وہ صحت کے معاملے میں بہت محتاط تھے اور اپنا دوپہر کا کھانا گھر سے لاتے تھے۔ان کے دفتر کے سامنے کوریڈور کے کونے میں ایک بلی اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔دوپہر کے کھانے میں سے جو بچ جاتا،عدیل صاحب اسے بلی کے لئے ایک برتن میں رکھ دیتے،جسے بلی اور اس کے بچے کھا لیتے۔
دفتر کا چوکیدار بھی بلی کا خیال رکھتا اور برتن کو دھو دیتا۔
بلی کے بچے ابھی چھوٹے ہی تھے کہ رمضان کا مہینہ آ گیا۔یہ سوچ کر کہ بلی اور اس کے بچوں کے لئے کھانے کا حصول مشکل ہو جائے گا۔عدیل صاحب سحری اور افطاری کا بچا ہوا کھانا بلی کے لئے گھر سے لانے لگے۔

(جاری ہے)

بلی اس بندوبست سے بہت خوش تھی۔وہ صبح سے ہی آ کر برتن کے پاس بیٹھ جاتی۔جب وہ کھانا لا کر بلی کے برتن میں ڈال دیتے تو بلی اور اس کے بچے مزے لے کر کھاتے۔

بلی عدیل صاحب سے اس قدر مانوس ہو گئی تھی کہ جب گھر جانے کے لئے وہ لفٹ کے پاس پہنچتے تو بلی کوریڈور کے کونے سے اُٹھ کر لفٹ کے پاس آ جاتی گویا انھیں خدا حافظ کہہ رہی ہو۔
وہ بلاناغہ بلی کے لئے کھانا لاتے۔وہ نماز روزے کے پابند تھے۔اسی طرح وقت سے پہلے دفتر پہنچنا اور مقررہ وقت پر دفتر سے گھر کے لئے روانہ ہونا ان کا معمول تھا۔ان کے پاس ذاتی سواری نہیں تھی،اس لئے بس سے دفتر آتے جاتے تھے۔
ان کا گھر دفتر سے بیس پچیس کلو میٹر دور ایک مضافاتی علاقے میں تھا۔رمضان المبارک کی 25 تاریخ تھی۔عدیل صاحب نے اپنے بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ دفتر سے واپس آنے کے بعد وہ انھیں عید کی خریداری کے لئے لے جائیں گے۔لہٰذا انھوں نے جلدی جلدی دفتر کا کام سمیٹا اور عمارت سے نیچے اُترنے کے لئے لفٹ کے پاس آ کر لفٹ کا بٹن دبا دیا۔انھیں خیال آیا کہ آج بلی نظر نہیں آ رہی۔
انھوں نے لفٹ کے پاس کھڑے کھڑے بلی کو آواز دی اور کوریڈور کے دوسری جانب دیکھنے لگے۔یہ خاصا لمبا راستہ تھا،جب کہ لفٹ درمیان میں نصب تھی۔بلی تو انھیں نظر آ گئی مگر خلاف معمول وہ ان کے پاس آنے کے بجائے وہیں کھڑے کھڑے میاوں میاوں کرنے لگی۔اسی دوران لفٹ آ گئی۔عدیل صاحب کا دل چاہا کہ لفٹ پر سوار ہو جائیں پھر یہ سوچ کر کہ بلی یا اس کے بچے کسی مصیبت میں نہ ہوں وہ کوریڈور کی دوسری جانب کھڑی بلی کے پاس چلے گئے۔
بلی آگے بڑھ کر ان کے پیروں سے لپٹنے لگی۔انھوں نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی،مگر انھیں بلی کی پریشانی کی کوئی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔بلی کے بچے بھی ایک طرف کھیل رہے تھے۔بلی کی طرف سے مطمئن ہو جانے کے بعد وہ لفٹ کے ذریعے عمارت سے اُتر کر بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔اس دوران پانچ دس منٹ گزر گئے۔جب وہ اسٹاپ پر پہنچے تو بس جا چکی تھی۔دوسری بس کچھ دیر بعد آتی تھی۔
آج انھیں جلدی گھر پہنچنا تھا اور پھر ان کے راستے میں ایک ریلوے پھاٹک آتا تھا،جہاں بعض اوقات ٹرین گزرنے کی وجہ سے دیر ہو جایا کرتی تھی۔وہ ان ہی سوچوں میں گم تھے کہ بس آ گئی اور وہ اس میں سوار ہو گئے۔
اتفاق سے انھیں بس میں بیٹھنے کی جگہ مل گئی اور ٹھنڈی ہوا لگنے سے انھیں نیند آ گئی۔یکایک شور کی آوازیں سن کر انھوں نے آنکھیں کھول کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو ان کا دل دہل گیا۔
سڑک پر ایک خوف ناک منظر تھا۔ہر طرف افراتفری تھی۔فلاحی اداروں کے رضاکار اور بہت سی ایمبولینسز کھڑی تھیں۔معلوم کرنے پر انھیں پتا چلا کہ وہ بس جو دفتر سے دیر سے نکلنے کی وجہ سے ان سے چھوٹ گئی تھی،اسے حادثہ پیش آ گیا ہے۔بس پھاٹک بند نہ ہونے کی وجہ سے ٹرین کی زد میں آ گئی ہے۔بہت سے مسافر زخمی تھے اور رضاکار انھیں اُٹھا کر ایمبولینسز میں ڈال رہے تھے۔پولیس کی بہت سی گاڑیاں بھی موقع پر موجود تھیں۔جو لوگوں کو منتشر کر رہے تھے۔
اب اللہ میاں کی رضا ان کی سمجھ میں آئی کہ بلی ان کو کیوں بلا کر لے گئی تھی اور کس طرح دیر ہو جانے کی وجہ سے ان سے وہ بس چھوٹ گئی تھی۔عدیل صاحب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا،جس نے بلی کو وسیلہ بنا کر انھیں ایک بڑے حادثے سے محفوظ رکھا۔

Browse More Moral Stories