Asaal Khoobsoorti - Pehli Qist - Article No. 1869

Asaal Khoobsoorti - Pehli Qist

اصل خوبصورتی۔پہلی قسط - تحریر نمبر 1869

میری تو اس سے نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی ،سچ میں بالکل چاند کی طرح چمک رہی تھی

پیر 11 جنوری 2021

شاہ بہرام انصاری
”امی!ذرا مجھے ستر روپے تو دیجیے گا۔“زارا امی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد جھانکتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔“کیا ہوا،بیٹی ،اتنی اچانک سے ستر روپے کی ضرورت کہاں سے پڑ گئی؟“تھوڑی دیر پہلے انہوں نے زارا کو ہفتہ وار جیب خرچ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو کچھ پیسے اور لے لو جس پر اس نے انکار کر دیا تھا اس لئے وہ تھوڑا اچنبھے سے پوچھ رہی تھیں۔
”وہ امی․․․․میں نے کریم منگوانی تھی جس کے لئے پورے ستر روپے کم ہو رہے ہیں۔جب آپ مجھے زیادہ پیسے دینے لگیں تھیں تو میں نے سمجھا تھا کہ پیسے پورے ہوں گے کیونکہ ابھی پچھلے ہفتے کے جیب خرچ میں سے کچھ رقم بچی ہوئی تھی بعد میں میں نے پرس سے نکال کر گنے تو نئے ملا کر بھی ستر روپے کم تھے۔

(جاری ہے)

آپ تو خود مجھے زیادہ پیسے رکھنے کا کہہ رہی تھیں اس لئے سوچا ابھی مانگ لیتی ہوں کیونکہ ڈبی میں جتنی کریم پڑی ہوئی ہے،وہ رات کو بھی پوری نہیں آئے گی۔


ان کے معمولی استفسار پر زارا نے پورے سیاق و سباق سے اپنا مدعا بیان کیا۔ادھر امی کا دھیان اس ساری تفصیل سے ہٹ کر صرف ایک لفظ”کریم“پر تھا۔انہیں بالکل پتہ نہیں تھا کہ زارا کوئی کریم وغیرہ استعما ل کر رہی ہے۔چند دنوں سے انہیں اس کی رنگت میں کچھ تبدیلی سی محسوس ہو رہی تھی جسے وہ سرد موسم کی آمد کی وجہ جان کر نظر انداز کر گئی تھیں۔
نہ انہوں نے خود کبھی کریم استعما ل کی تھی،نہ زارا کے پاس اتنے پیسے ہوتے تھے کہ وہ مہنگی کریموں پر فضول میں خرچ کر سکے لہٰذا اس کی گنجائش نہیں رہتی تھی کہ اس پر کسی کریم کے استعمال کا شک کیا جائے۔ ویسے بھی ہفتے کے جیب خرچ سے بمشکل اس کے تعلیمی اخراجات ہی پورے ہوتے ہوں گے اس لئے اس بات کا امکان بھی نہیں تھا کہ وہ اس میں سے کچھ پیسے بچا کے رکھ لے۔
”زارا بیٹی!کیا کہا تم نے،کیا تم کوئی کریم استعمال کر رہی ہو؟دراصل امی نے ایک بار اس سے پوچھ بھی لیا تھا کہ کہیں وہ چہرے پر کچھ لگا تو نہیں رہی جس پر وہ صاف مکر گئی تھی۔اسی لئے انہوں نے اس کو واضح بتا دینے کے باوجود تصدیق چاہی۔”جی جی امی!اس دن آپ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے جھوٹ بول دیا تھا کیونکہ میں ڈر رہی تھی کہ کہیں آپ مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں۔
”زارا سچ کہہ رہی تھی کیونکہ اس ڈر کے آثار فی الوقت اس کے لہجے سے بھی ظاہر ہو رہے تھے۔امی نے اسے اپنے کمرے میں جانے کو بولا اور کہا کہ وہ نماز پڑھ کر اسے پیسے دیتی ہیں۔زارا اپنے کمرے میں جا کر بے صبری سے ان کا انتظار کرنے لگی۔ادھر امی نماز سے فارغ ہو کر آٹا گوندھنے میں لگ گئیں۔
اس دوران وہ سوچتی رہی کہ کتنی جلدی زارا اتنی بڑی بھی ہو گئی کہ اپنی خوبصورتی کا سامان کر رہی ہے۔
خیر آٹا گوندھنے کے بعد وہ اسے ٹھہرنے کے لئے رکھ کر زارا کے کمرے کی جانب بڑھیں،وہ کمرے میں بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔انہیں دیکھ کر اپنے بیڈ پہ بیٹھ گئی،وہ اس بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔ان کے ہاتھ میں پیسے نہیں تھے لہٰذا زارا ان سے پوچھنے لگی کہ امی نے خود اس سے پوچھ لیا۔ ”بیٹی!تم کب سے اور کس کے مشورے سے یہ کریم استعمال کرنے لگی ہو؟“ان کے انداز میں تاحال نرمی تھی۔
”امی! وہ ہم پچھلے مہینے شادی پہ گئے تھے نا،وہاں صفیہ خالہ کی بیٹی آئی ہوئی تھی۔بڑی پیاری لگ رہی تھی بالکل سفید رنگت اور چہرے پر ایک بھی دانہ نہیں تھا۔میری تو اس سے نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی ،سچ میں بالکل چاند کی طرح چمک رہی تھی وہ میں نے اس کی تعریف کی تو بولی تم بھی فلاں کریم کا استعمال کرکے دیکھو،پندرہ دن کے اندر تم بھی میری طرح نظر آؤ گی۔

بس اس کا مشورہ تھا اور دیکھا آپ نے واقعی صرف ایک ڈبی کے استعمال سے میرا چہرہ کتنا صاف ہو گیا ہے۔کچھ لگائے بغیر ہی لگتا ہے جیسے ہلکا ہلکا میک اپ کیا ہو۔“زارا اپنے چہرے پہ آئی ہلکی سرخی کی جانب اشارہ کرکے پرجوش ہو رہی تھی۔”بیٹا!صفیہ خالہ کی بیٹی نے تمہیں احمقانہ مشورہ دیا اور تم نے عمل بھی کر لیا۔مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا بلکہ الٹا مجھ سے جھوٹ بولا کیوں؟“امی اب اس سے ناراضگی کا اظہار کرنے لگی تھیں۔
”امی مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں آپ مجھے غصے میں آکر ڈانٹ نہ دیں۔“زارا نے توجیہہ پیش کی۔“زارا بیٹا!تم نے چہرے کی محض ظاہری خوبصورتی کے لئے جلد کے کسی ماہر ڈاکٹر سے پوچھے بغیر کریم کا استعمال شروع کر دیا۔کیا تمہیں اندازہ ہے کہ اس کے نقصانات کیا ہوں گے؟“
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories