Chamakta Chand Sitara Rahe - Article No. 1778

Chamakta Chand Sitara Rahe

چمکتا چاند ستارہ رہے - تحریر نمبر 1778

رات بچے دیر تک اپنے گھر اور گلی میں لائٹنگ کرتے رہے اور ہر طرف پرچم لگا رہے تھے

ہفتہ 15 اگست 2020

توصیف سرور کمبوہ
”ارسلان بیٹا اٹھ جاؤ فجر کا ٹائم نکلتا جا رہا ہے اور اپنے دونوں بھائیوں عدید اور توصیف کو بھی اٹھا دو ورنہ تمہارے دادا جی چھڑی سے اٹھائیں گے۔“عنایت بی بی نے ارسلان کو آواز دی۔رات بچے دیر تک اپنے گھر اور گلی میں لائٹنگ کرتے رہے اور ہر طرف پرچم لگا رہے تھے کیونکہ کل 13اگست تھی اس لئے بچے 14اگست کے لئے اہتمام کرتے رہے اس لئے دیر سے سونے کی وجہ سے اب ان کی آنکھ نہیں کھل رہی تھی جبکہ ننھی اسمارہ اور نور فاطمہ ٹائم سے اٹھی ہوئی تھیں اور شور شرابہ کر رہی تھیں۔
اوئے!توصیف،عدید اٹھ جاؤ ابھی جھنڈیوں کا سارا کام رہتا ہے پھر دھوپ نکل آئے گی۔“عدید اور توصیف آنکھیں ملتے ہوئے فوراً اٹھ گئے نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد بچے اپنے دادا جی کے کمرے میں آگئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے دیکھا تو دادا جی قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول تھے۔وہ چار پائی پر بیٹھ گئے اور ان کے فری ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
دادا جی آنکھ چرا کر بچوں کی طرف بھی دیکھ لیتے اور تلاوت بلند آواز میں شروع کر دی پھر تھوڑی دیر بعد وہ فارغ ہو گئے۔

انہوں نے قرآن پاک کو چوم کر الماری میں رکھ دیا پھر وہ بچوں کی طرف متوجہ ہو گئے تو سب بچوں نے دادا جی کو سلام کیا انہوں نے خوش ہو کر سلام کا جواب دیا اور پیار سے باری باری سب کے سر پر ہاتھ پھیرا۔عدید نے محبت سے کہا۔دادا جی جشن آزادی مبارک ہو۔”ارے بیٹا!کیا آج 14اگست ہے؟“جی دادا جی،توصیف نے فوراً جواب دیا اور کہا۔دادا جی ہم سب اب جھنڈیاں لگانے لگے ہیں کہ اچانک ہمیں خیال آیا کہ پہلے آپ کو آزادی کی مبارکباد دے دیں اور پھر اپنا کام شروع کریں۔
”جیتے رہو اور جاؤ جلدی سے جھنڈیوں کا کام نپٹالو اور پھر زمین پہ بھی جانا ہے کپاس کی گوڈی کرنی ہے اور سبزیاں توڑ کر منڈی بھی لے کر جانی ہیں۔“دادا جی نے کہا”ہر گز نہیں۔آج ہم آزادی منائیں گے اور آج سبزیاں منڈی نہیں لے کر جائیں گے کیونکہ کل شام کو چاچو امجد اور بھائی عرفان نے سبزیاں توڑ لیں تھیں وہ صبح صبح منہ اندھیرے ریڑھی پہ رکھ کر لے گئے ہماری آج ہر کام سے چھٹی ہم آزادی منائیں گے۔
چاچو کے بچے بھی ہمارے ساتھ انجوائے کریں گے۔
ان کے چاچو بھی انہی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے جبکہ چھوٹے چاچو جاوید فیصل آباد تولیے کی فیکٹری چلا رہے تھے وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ وہی رہتے تھے کبھی کبھی چکر لگاتے تو گھر کی رونق دوبالا ہو جاتی۔دادا جی کے وہ سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے تھے ان سب کے لئے ڈھیروں تولیے فیکٹری سے بنا کر لے آئے اور پورے خاندان والوں کو دیتے۔
”سب بچے برآمدے میں چٹائی پہ آکر بیٹھ جاؤ اور ناشہ کرلو۔“بچوں کہ ممانی تصور خانم نے دروازے سے جھانک کر آواز لگائی اور فوراً رفو چکر ہو گئی۔ان کو عنایت بی بی نے کہا تھا پیاری تصور ذرا بچوں کو بلا لو پہلے ناشتہ کر لیں پھر یہ سب جھنڈیاں لگانے میں مصروف ہو جائیں گے اور جلدی جلدی توے پر پراٹھے بنائی جا رہی تھی۔ گرما گرم پراٹھوں کی خوشبو نے عدید کو پاگل کر دیا اور سب بچوں میں آگے آگے اچھلتا ہوا آرہا تھا۔

بے دھیانی میں ممانی تصور سے ٹکرا گیا اور اس کے ہاتھ سے میٹھی لسی کی بالٹی گر گئی جس سے ماموں طفیل پوری طرح سے نہا گئے کیونکہ راستے میں ہی پیڑھی پر بیٹھے تھے پھر ان کے اور ممانی کے کافی پھکڑ تاڑی ہو گئے۔طفیل محل پیلا پڑ گیا اور دوبارہ نہانے چلا گیا۔نانی زبیدہ نے آکر دونوں کا معاملہ رفع دفع کروایا جو کہ عنایت بی بی کے پاس بیٹھی دہی کے ساتھ گرما گرم پراٹھے کھا رہی تھیں۔
تھوڑی دیر میں سب بچوں نے مزے مزے سے آلو والے پراٹھے دہی کے ساتھ کھائے اور اپنی والدہ کے سر ہو گئے کہ گوند(الٹی)تیار کر دی آپ نے۔عنایت بی بی بولیں صبر کرو وہ تو رات ہی میں نے اور تصور نے تیار کرکے رکھ دی تھی۔نیم کے درخت کے نیچے پتیلا پڑا ہے جاؤ جاکر اور جھنڈیاں جوڑ لو خیال رہے ممانی کے کمرے میں یاد سے جھنڈیاں لگانا اور نہ وہ ناراض ہو جائے گی اور سارے گھر میں لڑائی مچ جائے گی وہ رات میرے ساتھ اس لائے ہاتھ بٹاتی رہی پھر جدید اور توصیف باؤلز میں گوند ڈال کر بیٹھ گئے اور دھاگوں پہ رنگ برنگی جھنڈیاں چپکانے لگے اور ضمن،حسان اور ارسلان جھنڈیوں کی لائن سیدھی کرتے جا رہے تھے۔

”اوئے،نور فاطمہ جھنڈیوں پہ پانی گرائے جا رہی ہو اس کو روکو۔“حسن نے چلاتے ہوئے کہا۔تین سالہ نور فاطمہ گلاس میں پانی ڈال کر جھنڈیوں پہ گرا رہی تھی اور خوشی سے اچھل رہی تھی۔دادا جی گھر میں لگے نیم کے درخت کے نیچے بیٹھے حقہ پی رہے تھے اور یہ سب نظارہ انجوائے کر رہے تھے پاس ہی ان کے سب سے بڑے بیٹے سرور صاحب براجمان تھے۔وہ دونوں باپ بیٹا14اگست کے حوالے سے بحث ومباحثے میں مصروف تھے پھر چاچو امجد بھی زمینوں سے واپس آکر ان کے پاس بیٹھ گئے اور اب بحث و تکرار عروج پر تھی۔
بچوں نے ان کی بلند آوازیں سن کر نظر انداز کر دیا کہ یہ تو ان کے روز کے معمولات ہیں۔”عرفان!پتر پہلا کام ناشتے والا کرلو ہم نے برتن سمیٹتے ہیں اور تم نہار منہ آم کھانے بیٹھ گئے ہو۔“
عرفان نے موقع غنیمت جان کر جلدی جلدی گرم گرم ہی آم کھانے شروع کر دئیے باقی سارے بچے جھنڈیوں میں مصروف تھے۔بیٹا نہار منہ گرم گرم نہیں کھاتے میں ٹھنڈے کر دیتی ہوں پھر سارے بچے ایک ساتھ کھا لینا پھر عنایت بی بی اور تصور خانم نے دو بڑے ٹب میں آم بھگو دئیے۔
عدید سے بھی نہ رہا گیا وہ بھی جھٹ سے وہ آم اٹھالایاایک جھولی میں رکھ لیا اور دوسرا منہ میں ٹھونس لیا اور ساتھ ساتھ جھنڈیاں جوڑتا جا رہا تھا۔ساری جھنڈیاں جوڑ کر بچوں نے پورے گھر کو دلہن کی طرح سجا دیا اور باہر لگی میں بھی پک سڑک تک جھنڈیاں لگا دی۔عدید اور توصیف شہر سے کافی مقدار میں جھنڈیاں لائے تھے۔کچھ پیسے انہوں نے گھر والوں سے لئے اور کچھ عدید نے گندم نعمان بھائی کی دکان پہ پہنچ کر حاصل کر لئے اس لئے سبز ہلالی جھنڈیوں کا کافی انتظام ہو گیا۔

Browse More Moral Stories