Bad Dua - Article No. 2012

Bad Dua

بد دعا - تحریر نمبر 2012

غرور کا سر کبھی اُٹھا نہیں رہتا۔تم رزق کے ایک ایک نوالے کو ترسو گے

جمعہ 9 جولائی 2021

حافظ محمد دانیال حسن
سیٹھ ساجد شہر کے بہت بڑے تاجر تھے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت ساری دولت اور زندگی کی تمام نعمتوں سے نوازا تھا۔وہ اپنی بیگم اور اکلوتے بیٹے کے ساتھ ایک بہت بڑے بنگلے میں رہتے تھے۔بہت زیادہ دولت نے انھیں مغرور کر دیا تھا اور وہ غریبوں کی مدد کرنا بلکہ ان سے بات کرنا تک گوارا نہ کرتے تھے۔

ایک دن وہ صبح سویرے اپنے پالتو جانوروں کو کھانا کھلا رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی چوکیدار چھٹی پر تھا۔مجبوراً انھیں خود دروازہ کھولنے جانا پڑا۔چوکیدار کو بُرا بھلا کہتے ہوئے جب انھوں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک ضعیف بزرگ کھڑے تھے اور حلیے سے غریب دکھائی دیتے تھے۔سیٹھ صاحب نے درشت لہجے میں ان سے آنے کی وجہ پوچھی۔

(جاری ہے)


بزرگ نے کہا:”اللہ کے نام پر کچھ مدد کر دو،اللہ آپ کے رزق میں برکت دے۔


یہ سننا تھا کہ ساجد صاحب کو غصہ آگیا۔انھوں نے نہایت بدتمیزی سے جواب دیا:”کیا میں اس لئے کماتا ہوں کہ تم جیسے کام چوروں کی مدد کرتا رہوں۔ہڑتال والے دن بھی چین نہیں ہے۔بھیک مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی،دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“
بزرگ نے یہ سن کر کہا:”غرور کا سر کبھی اُٹھا نہیں رہتا۔تم رزق کے ایک ایک نوالے کو ترسو گے۔“
انھوں نے فقیر کی بات کو سنی اَن سنی کر دیا اور ابھی واپس پلٹے ہی تھے کہ خانساماں کی خوف ناک آواز سنائی دی وہ بھاگ کر باورچی خانے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ خانساماں زمین پر گرا ہوا ہے اور چائے کی پتیلی اور فرائی پین اس کے اوپر گرا ہوا ہے۔

سیٹھ صاحب کی اہلیہ بیٹے کو ساتھ لے کر میکے گئی ہوئی تھی۔خانساماں ناشتہ بنا رہا تھا کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو ساتھ لیا اور قریبی کلینک لے گئے۔اس کے دونوں ہاتھ بُری طرح جل گئے تھے۔مجبوراً اس کو بھی چھٹی دینی پڑی۔ان کو خود کچھ بنانا نہیں آتا تھا۔انھوں نے سوچا کہ دفتر جا کر کچھ کھا لوں گا،لیکن پھر یاد آیا کہ آج تو ہڑتال ہے۔
دفتر بند رہے گا۔اب انھوں نے سوچا کہ ناشتہ نہ سہی دودھ پی کر گزارہ کر لیں۔یہ سوچ کر انھوں نے باورچی خانے میں قدم رکھا۔آہٹ کی آواز سن کر ایک بلی بڑی تیزی سے بھاگی۔وہ پتیلی میں سے دودھ پی رہی تھی۔بلی ڈر کر بھاگی تو دودھ کی پتیلی بھی گرا گئی۔بلی کو اچھی طرح بُرا بھلا کہنے کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ دیر ٹی وی پر ہڑتال کی صورت حال دیکھی جائے۔

ٹی وی دیکھتے ہوئے دن کے دو بج گئے تھے اور اب بھوک کی شدت سے مجبور ہو کر انھوں نے باورچی خانے کی دوبارہ تلاشی لے ڈالی۔انھیں بسکٹ کا ایک ڈبا ملا،لیکن جیسے ہی انھوں نے اسے کھولا تو دیکھا کہ چینٹیوں نے بسکٹ کو کھا کر بھربھرا کر دیا تھا وہ طیش میں آگئے،لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔
ہڑتال کی وجہ سے ہوٹل بھی بند تھے۔فریج میں ایک انڈا رکھا نظر آیا تو وہ خوش ہوئے۔
تلنے کے لئے اسے توڑا تو وہ گندا نکلا۔ایک کونے میں ان کو دہی کا رائتہ نظر آگیا۔باسی روٹی سے ابھی کھانا شروع کیا ہی تھا کہ انھیں پیالے میں کوئی چیز تیرتی ہوئی دکھائی دی۔انھوں نے غور سے دیکھا تو رائتے میں کاکروچ تیر رہا تھا۔انھیں یہ دیکھ کر ان کا جی متلا گیا۔
ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟سیٹھ کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی اور وہ روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہا تھا۔
اچانک ان کے ذہن میں فقیر کی بد دعا کے الفاظ گونجنے لگے۔اب انھیں احساس ہوا کہ صبح ان کے گھر پر سوالی بن کر آنے والا کوئی عام فقیر نہیں،بلکہ اللہ کے نیک بزرگ تھے اور یہ ان کی بے عزتی کرنے کی سزا تھی جو وہ بھگت رہے تھے۔یہ خیال آتے ہی انھوں نے گاڑی نکالی اور بزرگ کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔شام سے رات ہو گئی،لیکن بزرگ کا پتا نہ چلا۔چلتے چلتے انھیں ایک پرانی جھونپڑی نظر آئی،جس میں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔
وہ گاڑی سے اُترے اور جھونپڑی میں داخل ہو گئے۔ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی،کیونکہ جھونپڑی میں وہی بزرگ عبادت کر رہے تھے،جن سے صبح ساجد صاحب نے بد اخلاقی کی تھی۔انھوں نے روتے ہوئے بزرگ سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی غرور نہ کریں گے۔مجھے احساس ہو گیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے،اصل حقیقت انسان کے اعمال اور کردار کی ہے۔
بزرگ نے کمال شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پاس رکھی ہوئی کپڑے کی چھوٹی سے گٹھری ساجد کو دی۔
ساجد نے گٹھری کھولی تو اس میں سوکھی روٹی اور اچار کا ٹکڑا رکھا تھا۔اس کے ساتھ بزرگ نے مٹی کے پیالے میں پانی ڈالا اور ان کے پاس رکھ دیا۔انھوں نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور خوب پیٹ بھر کر کھایا۔آج ان کو یہ کھانا گھر کے کھانے سے بھی زیادہ لذیذ محسوس ہو رہا تھا۔انھوں نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے انھیں سیدھی راہ دکھا دی۔

Browse More Moral Stories