Lalchi Makhi - Article No. 2648
لالچی مکھی - تحریر نمبر 2648
مکھی چیونٹی کی ہمدرد نہیں اور اس کے لئے چیونٹی کا خیر خواہ ہونا ممکن بھی کہاں ہے
منگل 2 اپریل 2024
عرفان خان
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لئے ایک رستے سے گذر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر شہد کے ایک چھتے پر پڑی۔شہد کی خوشبو سے اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔چھتا ایک پتھر کے اوپر لگا تھا۔چیونٹی نے ہر چند کوشش کی کہ وہ پتھر کی دیوار سے اوپر چڑھ کر چھتے تک رسائی حاصل کرے مگر ناکام رہی کیونکہ اس کے پاؤں پھسل جاتے تھے اور وہ گر پڑتی تھی۔شہد کے لالچ نے اسے آواز لگانے پر مجبور کر دیا اور وہ فریاد کرنے لگی:”اے لوگو، مجھے شہد کی طلب ہے۔اگر کوئی جواں مرد مجھے شہد کے چھتے تک پہنچا دے تو میں اسے معاوضے کے طور پر ایک جو پیش کروں گی۔“
ایک پردار چیونٹی ہوا میں اُڑ رہی تھی۔اس نے چیونٹی کی آواز سنی اور اسے تنبیہ کرنے لگی:”دیکھو، ایسا نہ ہو کہ چھتے کی طرف چل دو۔
پردار بولی:”وہاں شہد کی مکھیاں ہیں جن کے ڈنک ہیں۔“چیونٹی بولی:”میں شہد کی مکھیوں سے نہیں ڈرتی، مجھے شہد چاہیے۔“
پردار بولی:”شہد چپکاؤ ہے۔تمہارے ہاتھ پاؤں اس میں الجھ جائیں گے۔“چیونٹی بولی:”اگر یونہی ہاتھ پاؤں چپک جایا کرتے تو کوئی شہد نہ کھا پاتا۔“
پردار بولی:”تم بہتر جانتی ہو۔لیکن آؤ، میری بات سنو اور شہد کا خیال چھوڑو۔میں پردار ہوں، سالخوردہ ہوں، اور تجربہ رکھتی ہوں۔چھتے کی طرف جانا بہت مہنگا پڑے گا اور ممکن ہے تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ۔“چیونٹی بولی:”اگر ممکن ہو تو اپنی مزدوری لو اور مجھے وہاں تک پہنچا دو۔اگر تم ایسا کرنے سے قاصر ہو تو زیادہ جوش نہ کھاؤ، مجھے کسی سرپرست کی ضرورت نہیں اور جو نصیحت کرتا ہے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔“
پردار بولی:”ممکن ہے کوئی ایسا نکل آئے جو تمہیں وہاں تک پہنچا دے لیکن اس میں کوئی بھلائی نظر نہیں آتی اور جس کام کا انجام اچھا نہ ہو، میں اس میں معاونت نہیں کرتی۔چیونٹی بولی:”خوامخواہ خود کو خستہ نہ کرو۔میں تو آج ہر قیمت پر چھتے تک پہنچوں گی۔“پردار نے اپنی راہ لی اور چیونٹی نے دوبارہ آواز لگائی:”کوئی ہے جواں مرد جو مجھے شہد کے چھتے تک پہنچا دے اور معاوضے میں ایک جو مجھ سے وصول کر لے؟اچانک ایک مکھی کا وہاں سے گذر ہوا۔“اس نے کہا:”بے چاری چیونٹی! تمہیں شہد کی طلب ہے اور تمہیں اس کا حق ہے۔میں تمہاری آرزو برلاتی ہوں۔“
چیونٹی بولی:”اللہ برکت دے، خدا تمہاری عمر دراز کرے۔تمہیں کہتے ہیں خیرخواہ جانور۔“مکھی نے چیونٹی کو زمین سے اُٹھایا اور اسے چھتے کے قریب بٹھا کر خود اُڑ گئی۔چیونٹی حد درجہ مسرور تھی۔کہنے لگی:”واہ واہ!کیسی سعادت ہے کیسا چھتا ہے، کیسی اچھی بو ہے، کیسا عمدہ شہد ہے کیا مزہ ہے اس میں۔اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔چیونٹیاں کس قدر بدقسمت ہیں کہ گندم اور جو جمع کرتی رہتی ہیں اور کس وقت بھی ان کا رخ شہد کے چھتے کی جانب نہیں ہوتا۔“
چیونٹی نے اِدھر اُدھر سے کچھ شہد چاٹا اور آگے بڑھتی گئی حتیٰ کہ شہد کے حوض میں جا پہنچی اور اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ پاؤں شہد سے چپک گئے ہیں اور اس کے لئے اپنی جگہ سے حرکت کرنا ممکن نہیں رہا۔اس نے اپنی نجات کے لئے جس قدر کوشش کی، بے نتیجہ رہی۔تب اس نے فریاد کی:”عجب طرح پکڑی گئی ہوں۔اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہو گی، اے لوگو!مجھے نجات دلاؤ۔کوئی جواں مرد مجھے نجات دلاؤ۔ہے کوئی جواں مرد مجھے اس چھتے سے باہر نکال لائے اور میں اسے ”دو جو“ انعام میں پیش کروں؟ پیشکش پہلے تھی اک جو کی سو اب دو کی ہے، اس جہنم سے نکلنے کی یہی سوجھی ہے!
عین اس وقت پردار چیونٹی اپنے سفر سے واپس آ رہی تھی۔اسے اس حال میں دیکھ کر پردار کو بڑا دکھ ہوا اور اس نے فوراً اس کو مصیبت سے نکالا۔پھر بولی:”میں تمہیں سرزنش نہیں کرنا چاہتی لیکن اتنی بات ضرور کہوں گی کہ زیادہ لالچ گرفتاری کا سبب بن جاتا ہے۔“آج تو تمہارا نصیب بلندی پر تھا کہ میں اچانک یہاں پہنچ گئی لیکن آئندہ محتاط رہنا۔گرفتاری سے پہلے نصیحت کو غور سے سن لینا اور کسی مکھی سے مدد نہ مانگنا۔مکھی چیونٹی کی ہمدرد نہیں اور اس کے لئے چیونٹی کا خیر خواہ ہونا ممکن بھی کہاں ہے؟
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لئے ایک رستے سے گذر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر شہد کے ایک چھتے پر پڑی۔شہد کی خوشبو سے اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔چھتا ایک پتھر کے اوپر لگا تھا۔چیونٹی نے ہر چند کوشش کی کہ وہ پتھر کی دیوار سے اوپر چڑھ کر چھتے تک رسائی حاصل کرے مگر ناکام رہی کیونکہ اس کے پاؤں پھسل جاتے تھے اور وہ گر پڑتی تھی۔شہد کے لالچ نے اسے آواز لگانے پر مجبور کر دیا اور وہ فریاد کرنے لگی:”اے لوگو، مجھے شہد کی طلب ہے۔اگر کوئی جواں مرد مجھے شہد کے چھتے تک پہنچا دے تو میں اسے معاوضے کے طور پر ایک جو پیش کروں گی۔“
ایک پردار چیونٹی ہوا میں اُڑ رہی تھی۔اس نے چیونٹی کی آواز سنی اور اسے تنبیہ کرنے لگی:”دیکھو، ایسا نہ ہو کہ چھتے کی طرف چل دو۔
(جاری ہے)
اس میں بڑا خطرہ ہے۔
“چیونٹی بولی، فکر نہ کرو، مجھے پتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔پردار بولی:”وہاں شہد کی مکھیاں ہیں جن کے ڈنک ہیں۔“چیونٹی بولی:”میں شہد کی مکھیوں سے نہیں ڈرتی، مجھے شہد چاہیے۔“
پردار بولی:”شہد چپکاؤ ہے۔تمہارے ہاتھ پاؤں اس میں الجھ جائیں گے۔“چیونٹی بولی:”اگر یونہی ہاتھ پاؤں چپک جایا کرتے تو کوئی شہد نہ کھا پاتا۔“
پردار بولی:”تم بہتر جانتی ہو۔لیکن آؤ، میری بات سنو اور شہد کا خیال چھوڑو۔میں پردار ہوں، سالخوردہ ہوں، اور تجربہ رکھتی ہوں۔چھتے کی طرف جانا بہت مہنگا پڑے گا اور ممکن ہے تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ۔“چیونٹی بولی:”اگر ممکن ہو تو اپنی مزدوری لو اور مجھے وہاں تک پہنچا دو۔اگر تم ایسا کرنے سے قاصر ہو تو زیادہ جوش نہ کھاؤ، مجھے کسی سرپرست کی ضرورت نہیں اور جو نصیحت کرتا ہے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔“
پردار بولی:”ممکن ہے کوئی ایسا نکل آئے جو تمہیں وہاں تک پہنچا دے لیکن اس میں کوئی بھلائی نظر نہیں آتی اور جس کام کا انجام اچھا نہ ہو، میں اس میں معاونت نہیں کرتی۔چیونٹی بولی:”خوامخواہ خود کو خستہ نہ کرو۔میں تو آج ہر قیمت پر چھتے تک پہنچوں گی۔“پردار نے اپنی راہ لی اور چیونٹی نے دوبارہ آواز لگائی:”کوئی ہے جواں مرد جو مجھے شہد کے چھتے تک پہنچا دے اور معاوضے میں ایک جو مجھ سے وصول کر لے؟اچانک ایک مکھی کا وہاں سے گذر ہوا۔“اس نے کہا:”بے چاری چیونٹی! تمہیں شہد کی طلب ہے اور تمہیں اس کا حق ہے۔میں تمہاری آرزو برلاتی ہوں۔“
چیونٹی بولی:”اللہ برکت دے، خدا تمہاری عمر دراز کرے۔تمہیں کہتے ہیں خیرخواہ جانور۔“مکھی نے چیونٹی کو زمین سے اُٹھایا اور اسے چھتے کے قریب بٹھا کر خود اُڑ گئی۔چیونٹی حد درجہ مسرور تھی۔کہنے لگی:”واہ واہ!کیسی سعادت ہے کیسا چھتا ہے، کیسی اچھی بو ہے، کیسا عمدہ شہد ہے کیا مزہ ہے اس میں۔اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔چیونٹیاں کس قدر بدقسمت ہیں کہ گندم اور جو جمع کرتی رہتی ہیں اور کس وقت بھی ان کا رخ شہد کے چھتے کی جانب نہیں ہوتا۔“
چیونٹی نے اِدھر اُدھر سے کچھ شہد چاٹا اور آگے بڑھتی گئی حتیٰ کہ شہد کے حوض میں جا پہنچی اور اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ پاؤں شہد سے چپک گئے ہیں اور اس کے لئے اپنی جگہ سے حرکت کرنا ممکن نہیں رہا۔اس نے اپنی نجات کے لئے جس قدر کوشش کی، بے نتیجہ رہی۔تب اس نے فریاد کی:”عجب طرح پکڑی گئی ہوں۔اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہو گی، اے لوگو!مجھے نجات دلاؤ۔کوئی جواں مرد مجھے نجات دلاؤ۔ہے کوئی جواں مرد مجھے اس چھتے سے باہر نکال لائے اور میں اسے ”دو جو“ انعام میں پیش کروں؟ پیشکش پہلے تھی اک جو کی سو اب دو کی ہے، اس جہنم سے نکلنے کی یہی سوجھی ہے!
عین اس وقت پردار چیونٹی اپنے سفر سے واپس آ رہی تھی۔اسے اس حال میں دیکھ کر پردار کو بڑا دکھ ہوا اور اس نے فوراً اس کو مصیبت سے نکالا۔پھر بولی:”میں تمہیں سرزنش نہیں کرنا چاہتی لیکن اتنی بات ضرور کہوں گی کہ زیادہ لالچ گرفتاری کا سبب بن جاتا ہے۔“آج تو تمہارا نصیب بلندی پر تھا کہ میں اچانک یہاں پہنچ گئی لیکن آئندہ محتاط رہنا۔گرفتاری سے پہلے نصیحت کو غور سے سن لینا اور کسی مکھی سے مدد نہ مانگنا۔مکھی چیونٹی کی ہمدرد نہیں اور اس کے لئے چیونٹی کا خیر خواہ ہونا ممکن بھی کہاں ہے؟
Browse More Moral Stories
آخری دروازہ
Akhri Darwaza
دستِ شفا
Dast E Shifa
غرورکی سزا
Gharoor Ki Saza
جادو کا آئینہ۔۔۔۔۔تحریر:مختاراحمد
Jadu Ka Aaina
بطخ کے انڈے
Batakh K Anday
کھانا چور
Khana Chor
Urdu Jokes
صحیح عمر
sahih Umar
دماغ روشن کر رہا ہوں
dimagh roshan kar raha hon
سسرال کی گھڑی
sasural ki ghari
رکشا ڈرائیور
rickshaw driver
اسمبلی
assembly
ایک چھوٹی لڑکی
aik choti larki
Urdu Paheliyan
شوں شوں کرتی نار اک نکلی
sho sho karti naar ek nikli
جاگو تو وہ پاس نہ آئے
jagu tu wo paas na aaye
دیکھی اک نازک سے بیٹی
dekha ek nazuk si beti
سورج کے جانے پر تین
sooraj ke jane per teen
بند آنکھوں نے جو دکھلایا
band ankhon ne jo dikhlaya
مٹھی میں وہ لاکھوں آئیں
muthi me wo lakho aye
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos