Buland Hosla - Article No. 2435
بلند حوصلہ - تحریر نمبر 2435
اب بھی کبھی کبھی وہ اپنا ماضی یاد کرکے کانپ اُٹھتی ہے
جمعرات 12 جنوری 2023
”شازیہ!میں تمہیں کب سے آواز دے رہی ہوں،سنتی نہیں ہو تم۔“
”میں اسکول کا کام کر رہی تھی۔“
”پڑھائی پر دھیان ذرا کم دیا کرو۔جاؤ جا کر پانی گرم کرو۔“
شازیہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔والدین ایک حادثے میں وفات پا چکے تھے۔وہ اپنے ماموں کے گھر میں رہتی تھی۔ماموں کی بھی ایک ہی بیٹی نیلم تھی جو شازیہ کی ہم عمر تھی۔ممانی کا رویہ اس کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ماموں کچھ سوچ کر خاموش رہتے تھے۔
شازیہ نیک فطرت لڑکی تھی۔گھر کے سارے کام کرتی تھی،اس کے باوجود گھر میں اس کی کوئی قدر،کوئی اہمیت نہیں تھی۔نہ کوئی کام اس کی مرضی سے ہوتا تھا۔شازیہ کے ماموں گھر کا ماحول خراب ہونے کے ڈر سے خاموش ہی رہا کرتے تھے۔
(جاری ہے)
ایک دن ممانی نے ماموں سے کہا:”شازیہ کی پڑھائی کا یہ آخری سال ہے۔
ماموں نے کہا:”تو کیا شازیہ صرف میٹرک ہی کرے گی؟“
”تو کیا آپ اسے ڈاکٹر بنائیں گے!پڑھائی میں پیسے نہیں لگتے کیا۔“ممانی نے کہا۔
شازیہ دروازے کے پیچھے سے یہ سب سن رہی تھی۔وہ سامنے آ کر بولی:”نہیں مامی!ایسا مت کریں،میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔“
”بس کرو شازیہ!ہمیں نیلم کے بارے میں بھی تو سوچنا ہے۔“
آج شازیہ کو اپنے والدین شدت سے یاد آ رہے تھے۔وہ روتے روتے سو گئی۔میٹرک کا امتحان دینے کے بعد وہ گھر میں مکمل طور پر نوکرانی بن چکی تھی۔شازیہ نے ہمت کی اور ماموں کی حمایت سے سلائی کا کام سیکھنا شروع کیا۔شروع میں ممانی نے اعتراض کیا،لیکن پھر کچھ سوچ کر خاموش ہو گئیں۔
شازیہ سلائی سیکھ رہی تھی،جب کہ نیلم آگے تعلیم حاصل کر رہی تھی۔شازیہ نے محلے کے کپڑے بھی سینے شروع کر دیے۔اب آہستہ آہستہ شازیہ کے ہاتھ میں کچھ پیسے آنے لگے تھے،مگر ابھی انھیں خرچ کرنے کا وقت نہیں آیا تھا۔
وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے بے قرار تھی۔جب ایک معقول رقم اس کے پاس جمع ہو گئی تو اس نے اللہ کا نام لے کر ایک چھوٹے سے بوتیک کا آغاز کیا۔کچھ اندیشے بھی تھے،لیکن رفتہ رفتہ کام چل نکلا۔وقت بڑی تیزی سے گزرتا رہا۔اب شازیہ نے ایک شاندار علاقے میں بوتیک منتقل کر لیا تھا،جہاں لوگوں کی آمد کافی بڑھ چکی تھی۔
اب وہ ایک بڑے کاروبار کی مالک تھی اور اس کی صحت بہت اچھی ہو گئی تھی۔اس دوران اس نے اپنا تعلیمی سلسلہ بھی قائم رکھا تھا۔
ماموں کے گھرانے سے بھی اس کے تعلقات اچھے ہو گئے تھے۔وہ ماموں کے احسان کا بدلہ اُتارنے کے قابل ہو چکی تھی۔
مالی طور پر مستحکم ہونے کے بعد اس نے اپنی جیسی دوسری لڑکیوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔اب بھی کبھی کبھی وہ اپنا ماضی یاد کرکے کانپ اُٹھتی ہے۔
Browse More Moral Stories
اُڑنے والا قالین
Urne Wala Qaleen
کچھ لو،کچھ دو
Kuch Lo Kuch Dou
ظالم بھیڑئیے کا انجام
Zalim Bheriye Ka Anjaam
طالب علمی کے آداب
Talib Ilmi K Adaab
بھروسا
Bharosa
بیٹے کی ذہانت
Beete Ki Zehanat
Urdu Jokes
ایک بڑے شہر
aik barray shehar
ایک صاحب نے گداگر کو
aik sahib ne gadagar ko
ایک شکاری
Aik shikari
ریفری
referee
بدتمیز ویٹر
badtameez waiter
سچ بولنے کی سزا
sach bolne ki saza
Urdu Paheliyan
مٹھی میں وہ لاکھوں آئیں
muthi me wo lakho aye
سر ہے چمٹا منہ نوکیلا
sar hi chimta munh nokeela
جھیل کے اوپر اک مینار
jheel ke upar ek minar
کھڑی رہے تو بیٹھے کب
khari rahe to bethy kab
یہ نہ ہو تو کوئی پرندہ
ye na ho tu koi parinda
شوں شوں کرتی نار اک نکلی
sho sho karti naar ek nikli