Ehsaas - Dosra Hissa - Article No. 2387

Ehsaas - Dosra Hissa

احساس (دوسرا حصہ) - تحریر نمبر 2387

پھپھو جانی میرا سکول جانے کو دل نہیں کرتا۔۔۔۔نہ ہی ہوم ورک کرنے کو کرتا ہے

ہفتہ 5 نومبر 2022

نیلم علی راجہ
تم کب آئی؟بندہ کوئی فون ہی کر دیتا ہے۔میں نہ جاتی۔تمہاری سرپرائز دینے والی عادت نہ گئی۔ثناء نے ایک سانس میں سب کہہ ڈالا۔روایتی نند بھابھی کے بجائے دونوں میں دوستی بہت تھی۔
میں․․․بس دل کیا تو آگئی،عمر تین ماہ کے لئے ملک سے باہر گئے ہیں۔میرا دل چاہا تم لوگوں کے پاس آکر رہوں تو آگئی۔ارم نے جواب دیا۔
بہت اچھا کیا یہ تو۔ثناء نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔راحیل بھی تمہیں دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔تم نے بتایا تو نہیں کہ تم آئی ہوئی ہو۔ثناء نے استفسار کیا۔نہیں بھابھی میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ارم نے جواب دیا۔چلو رات کو سرپرائز ملے گا انھیں۔ثناء نے خوشی سے کہا۔
اسعد جو ماں کو دیکھ رہا تھا۔فوراً اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

(جاری ہے)

ثناء نے اسے دیکھا تو آواز دے ڈالی۔

مگر وہ رکا نہیں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ثناء ارم کو دیکھ کر کہنے لگی:”مجھے سمجھ نہیں آتی یہ ہر وقت مجھ سے روٹھا روٹھا رہتا ہے۔“کوئی بات نہیں کرتا نہ ہی سکول کی کوئی بات بتاتا ہے۔بس اپنے کمرے میں بند رہتا ہے۔اب میں آگئی ہوں ناں دیکھ لیتی ہوں کیا مسئلہ ہے۔آپ پریشان مت ہوں۔ارم نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ثناء نے ایک بار پھر اسے گلے لگا لیا۔
رات کا کھانا کھا کر ثناء اور راحیل اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ ارم اسعد کے کمرے میں چلی گئی۔اسعد کھانا کھا کر پہلے آ گیا تھا۔سکول کا ہوم ورک کر رہا تھا۔ارم کو آتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے کاپی بند کرنے لگا۔
ارم نے کاپی لیتے ہوئے کہا:”ارے مجھے بھی دکھاؤ۔میں بھی تو دیکھوں کہ میرا شہزادہ کیسا لکھتا ہے؟ارے یہ کیا کس طرح لکھ رہے ہو۔
صاف صاف لکھو ناں۔ارم نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔“پھپھو جانی میرا سکول جانے کو دل نہیں کرتا۔۔۔۔نہ ہی ہوم ورک کرنے کو کرتا ہے۔اسعد اداس شکل بنا کر بولا۔ارم نے بغور اس کی طرف دیکھا تو اسعد نے نظریں چرانا شروع کر دیں۔مجھے تو بتاؤ کیا مسئلہ ہے کیوں نہیں سکول اچھا لگتا۔ارم نے اس سے پوچھا۔اسعد خاموش رہا۔اچھا ٹھیک ہے اب میں جتنے دن یہاں ہوں تمہیں میں ہوم ورک بھی کرواؤں گی اور خود سکول چھوڑ کر بھی آیا کروں گی۔
ارم نے اسے خوش کرتے ہوئے کہا۔
اسعد یہ سن کر گھبراتے ہوئے کہنے لگا:”نہیں نہیں پھپھو میں خود چلا جاؤں گا۔آپ سکول مت آنا۔“ارم کو سمجھ نہیں آئی مگر اسے زیادہ نہیں کریدا۔اچھا اچھا اب چلو تم آرام کرو صبح جلدی اُٹھنا ہوتا ہے تمہیں۔ارم اب پریشان ہو گئی تھی۔وہ بھی اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئی۔اور اسعد کے بارے میں سوچتی رہی۔اپنی اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اسعد سے اسے بہت محبت تھی۔
وہ تھا بھی اس کا لاڈلا۔صبح فجر کی نماز کے بعد سونے کا ارادہ ترک کرکے وہ اسعد کے کمرے میں چلی گئی۔
اسعد واش روم میں گیا ہوا تھا۔بیڈ پر اس کا یونیفارم رکھا تھا۔یونیفارم کا رنگ پیلا تھا۔اور جوتے بھی گندے تھے۔قریب پڑی جرابوں سے بو آ رہی تھی۔لگتا تھا کسی نے صحیح طرح سے دھوئے نہیں تھے۔
وہ اُلٹے قدموں باورچی خانے میں چلی گئی۔صغراں اسعد کا ناشتہ بنا رہی تھی۔
صغراں اسعد کے یونیفارم کا حال دیکھا ہے تم نے؟ارم نے خفگی سے پوچھا۔صغراں یوں پکڑے جانے پر بوکھلا گئی۔
وہ بی بی جی دھونے کا وقت نہیں ملا وہ کہنے لگی۔سارا دن تم فارغ رہتی ہو۔اور کتنا وقت چاہیے تمہیں۔اور یہ انڈہ تم نے جلا کے رکھ دیا ہے۔بھابھی کچھ نہیں کہتی تمہیں۔ارم اسے اسعد کا دوسرا صاف یونیفارم نکالنے کا کہہ کر خود انڈہ بنانے لگی۔ناشتہ ٹرے میں رکھ کر وہ اسعد کے کمرے میں ہی لے آئی۔اب صغراں اس کا صاف یونیفارم نکال چکی تھی۔اب جا کر اس کے جوتے پالش کرکے لاؤ۔اور ناشتہ کرکے اس کے سارے یونیفارم دھو کر مجھے دکھاؤ۔جرابیں بھی دھو اور ابھی کوئی دھلی ہوئی لے کر آؤ۔ارم نے اسے سختی سے کہا۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories