Hamari Zehanat - Article No. 1785

Hamari Zehanat

ہماری ذہانت - تحریر نمبر 1785

میں نے کہا کہ اگر آپ کو یقین نہیں تو آپ مجھ سے نصابی کتب تو کیا ان کے علاوہ بھی جو سوال کرنا چاہتی ہیں،کریں ۔

پیر 24 اگست 2020

صدیق الرحمن شاہ،سرگودھا
امتحان میں جب میری اول پوزیشن آئی تو خوشی سے نہال ہو گیا۔امی ابو نے سراہا اور خاندان کی دعوت کر دی۔دراصل لاڈلا بیٹا تھا،مگر افسوس امی،ابو کی خواہش و کوشش کے باوجود مہنگی ٹیوشن بھی مجھے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ دلا پائی کہ جس پر میں یا امی ابو فخر کرسکتے،مگر اس بارچوں کہ اول آیا تو خاندان بھر کی دعوت کر ڈالی۔
مقررہ دن میرے ہم عمر کزنز،چچا،تایا،پھوپھی وغیرہ سب میری اس کامیابی پر خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔میں سب کی آنکھوں میں اپنے لئے عزت اور انوکھی سی اپنائیت محسوس کر رہا تھا۔ہاں اگر کوئی میری کامیابی سے متاثر نہیں تھا تو وہ میری آپی جان۔ان کے مطابق یہ کوئی کمال نہ تھا ۔اس بات نے مجھے مزید طیش دلا دیا کہ بقول آپی یہ کامیابی میری ذاتی محنت کا نتیجہ نہ تھی۔

(جاری ہے)


ہم دونوں میں ٹھن گئی۔میں نے کہا کہ اگر آپ کو یقین نہیں تو آپ مجھ سے نصابی کتب تو کیا ان کے علاوہ بھی جو سوال کرنا چاہتی ہیں،کریں ۔یہ بات میں نے دراصل اس لئے کہی تھی کہ آپی کا روز مرہ کا ایک بڑا عتراض یہ بھی تھا کہ میں نصابی کتابوں کے رٹے لگاتا ہوں مزید کسی موضوع پر نہ کبھی سوچا ہے نہ غور و فکر کیا ہے۔
”ٹھیک ہے شام کو ابو اور امی کی موجودگی میں،میں تمہارا امتحان لوں گی۔
“آپی نے کہا اور چھت پر چلی گئیں۔وہ رسائل اور کتب جن پر کبھی نگاہ التفات بھی نہ ڈالی تھی،آج میں امتحان کی تیاری کے لئے کھولے بیٹھا تھا۔نہ جانے کیسا امتحان ہو گا۔لکھنے والا یا سنانے والا۔کون کون سے سوالات ہوں گے۔جوابات دے بھی پاؤں گا یا آج میری شیخی کی اُڑتی ہوئی جھاگ بیٹھ جائے گی۔فیصلہ شام کو ہونا تھا۔جلد ہی امتحان گاہ یعنی طے شدہ کمرے میں پہنچے۔
آپی ایسے بیٹھی تھیں جیسے جج مجرم کے کٹہرے میں آنے کا انتظار کر رہا ہو۔امی ابو ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔
”میں صرف ایک سوال کروں گی۔“آپی نے کہا۔”کیا․․․․․صرف ایک سوال؟“ہم تینوں کے منہ سے بہ یک وقت نکلا۔
”ہاں!صرف ایک سوال اور وہ یہ کہ تمہیں روز بیس روپے کا نوٹ جیب خرچ کے لئے ملتا ہے۔اس نوٹ پر 20 کا عدد کتنی مرتبہ لکھا ہوتا ہے؟“اس بے وقوفانہ اور عام سے سوال پر میں دل میں ہنسا اور جھٹ سے بولا:”گیارہ مرتبہ۔
“میں یہ کام پہلے ہی کسی کے پوچھنے پر کر چکا تھا۔”غلط“۔آپی کا فیصلہ میری توقع کے خلاف تھا۔بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کھیل کو دوستوں کے ساتھ کئی مرتبہ کھیل چکا تھا۔پورے نوٹ کو کئی مرتبہ الٹ پلٹ کر ”11مرتبہ “ سے زائد ”20“ نہ تلاش کر سکا۔وہ بھی صرف ریاضی کے ہندسوں میں نہیں،بلکہ انگریزی میں لکھا”Twenty“ اور اردو میں لکھا”بیس“بھی شامل کر چکا تب ہی بہ مشکل گیارہ بن سکے۔

پھر آپی سے ہی پوچھا توانھوں نے کہا کہ سینکڑوں مرتبہ۔میں حیران رہ گیا۔آخر انھوں نے نوٹ کے اگلے اور پچھلے طرف بنی تین لکیروں کی طرف اشارہ کیا۔پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا،مگر پھر عدسے کی مدد سے دیکھا تو یہ لکیریں نہیں بلکہ ان کی جگہ ننھے ننھے”20“ جگمگا رہے تھے۔ اگر نوٹ کو دائیں طرف سے دیکھنا شروع کریں تو ایک لکیر قائداعظم کی ٹوپی سے جا ملتی ہے۔چور نظروں سے آپی کی طرف دیکھا تو وہ اس ادا پر مسکرادیں اور مجھے ان کے روز مرہ کے اعتراض میں صداقت نظر آنے لگی۔سوال تھا تو غیر متعلقہ،مگر میری نالائقی کو ثابت کر گیا۔

Browse More Moral Stories