Qaid - Article No. 1965

Qaid

قید - تحریر نمبر 1965

جو بات میں تمہیں ایک عرصے میں نہ سمجھا سکا،وہ بات تمہیں ایک خواب نے سمجھا دی

جمعہ 7 مئی 2021

یمنیٰ امجد،بہاول پور
”السلام علیکم“بارہ سالہ عادل نے اپنے دوست نعمان کے گھر میں داخل ہو کر اس کی والدہ کو سلام کیا۔
”وعلیکم السلام“نعمان کی امی نے جواب دیا۔
”نعمان کدھر ہے خالہ!“
”اوپر پرندوں کے پاس ہے۔جاؤ،اوپر ہی چلے جاؤ۔“انھوں نے جواب دیا۔
”جی اچھا۔“کہہ کر وہ اوپر چلا گیا۔

”بہت اچھے موقع پر آئے ہو عادل!دیکھو میں نے چڑیوں کا نیا جوڑا لیا۔“نعمان نے عادل کو دیکھتے ہی کہا۔
نعمان کو پرندے پالنے کا بہت شوق تھا۔اس کے پاس بہت سارے پرندے تھے۔جب کہ عادل کا خیال تھا کہ پرندوں کو قید کرنا مناسب نہیں ہے۔
”کتنا پیارا ہے ناں؟“نعمان نے فخر سے بتایا۔
”ہاں اچھا ہے۔

(جاری ہے)

“عادل نے مختصر جواب دیا۔


”کیا سوچ رہے ہو عادل!“
عادل نے کہا:”نعمان!پرندے آزاد ہی اچھے لگتے ہیں ان کو قید کرنا ٹھیک نہیں۔“عادل نے ایک بار پھر نعمان کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”تم میرے اس شوق کو پسند نہیں کرتے؟“نعمان برہم ہو کر بولا۔
”نہیں نعمان!اگر تمہیں کوئی قید کر دے تو تمہیں کیسا لگے گا؟“
”کوئی مجھے کیوں قید کرے گا۔
میں انسان ہوں اور وہ پرندے،پرندے خریدنے کے لئے ہی بازار میں ہوتے ہیں نا۔میں انھیں خرید سکتا ہوں اور خریدوں گا،تمہیں بُرا لگتا ہے تو تم نہ آیا کرو یہاں۔“آج خلاف معمول نعمان کا موڈ خراب ہو گیا۔
”مجھے چلنا چاہیے۔امی انتظار کر رہی ہوں گی۔“
عادل روہانسا ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
پورا دن نعمان کے ذہن میں عادل کی باتیں گونجتی رہیں۔
بستر پر لیٹ کر بھی وہ یہی سوچتا رہا اور جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔نعمان اسکول سے واپس آرہا تھا۔دوپہر کا وقت تھا۔گلیاں سنسان تھیں۔وہ جلد از جلد اپنے گھر پہنچنا چاہتا تھا،مگر اچانک پیچھے سے کسی نے اس کی ناک پر کپڑا رکھ دیا۔اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔
آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک بڑے کمرے میں پایا۔ابھی اس کے حواس پوری طرح بحال نہیں ہوئے تھے کہ ایک دیونما آدمی اندر داخل ہوا اور اس کے سامنے کھانا رکھ کر چلا گیا۔
نعمان کو بھوک نہیں تھی۔اسے اپنے امی ابو یاد آرہے تھے۔اس نے رونا شروع کر دیا اور روتا ہی چلا گیا۔
”نعمان بیٹا!کیا ہوا؟“وہ رو رہا تھا جب اس کی امی کی آواز اس کے کانوں میں ٹکرائی۔اس کی آنکھ کھل گئی۔
”کیا ہوا بیٹا!بُرا خواب دیکھا کیا؟“
”جی امی!میں کسی کی قید میں تھا۔“
”قید․․․․اوہو!“اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔

”عادل!مجھے معاف کر دو۔“نعمان اگلے دن عادل سے معافی مانگ رہا تھا۔
عادل نے خوشگوار حیرت سے اسے دیکھا:”ایسی کیا بات ہو گئی نعمان!“
”آؤ،تمہیں ایک چیز دکھانی ہے۔“نعمان اسے کھینچتا ہوا اپنے گھرکی چھت پر لے آیا۔عادل نے دیکھا اس کی چھت پر پڑے تمام پنجرے خالی تھے۔اسے بہت حیرت ہوئی۔
”سارے پرندے کہاں گئے؟“اس نے حیران ہو کر پوچھا۔
”میں نے آزاد کر دیے۔“نعمان نے مسرت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
آدھے گھنٹے بعد دونوں دوست کافی پیتے ہوئے قہقہے لگا رہے تھے۔
”نعمان!جو بات میں تمہیں ایک عرصے میں نہ سمجھا سکا،وہ بات تمہیں ایک خواب نے سمجھا دی۔“عادل نے ہنستے ہوئے کہا۔نعمان کا سر جھکا ہوا تھا۔

Browse More Moral Stories